ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں شہادت نے ایرانی قوم کیساتھ پاکستانیوں کو بھی غم زدہ کر دیا ہے۔ صدر رئیسی پچھلے ماہ ہی پاکستان کے دورے پر آئے تھے۔ اس دورے میں وہ مختلف الخیال لوگوں سے ملے، مختلف فورموں پر خطاب اور تبادلہ خیال کیا اور جہاں جہاں گئے خوشگوار یادیں چھوڑیں۔ انہوں نے جتنی باتیں کیں پاکستان کے بہترین دوست کی حیثیت سے کیں جبکہ پاک ایران بھائی چارے میں اضافے اور باہمی اشتراک و تعاون بڑھانے کے لئے ا نکی جانب سے کئی پیش رفتیں سامنے آئیں اور یہ امکانات نمایاں ہوئے کہ اسلام آباد اور تہران مل کر کئی مسائل حل کرنے کی راہیں نکال لیں گے۔ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے ایرانی صدر کی شہادت کی خبر کی تصدیق ہونے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے ملک بھر میں یوم سوگ منانے اور قومی پرچم سرنگوں رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہناہے کہ صدر رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد ہم پُرامید تھے کہ ریسکیو آپریشن کے نتیجے میں کوئی اچھی خبر ملے گی مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا جس پر ہم دل کی گہرائیوں سے افسردہ ہیں۔صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی ایرانی صدر کی حادثے میں شہادت پر صدمے اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ مختلف وزراء اور سیاسی رہنمائوں کی جانب سے بھی تعزیتی بیانات سامنے آئے ہیں۔ ایرانی صدر رئیسی ایران اور آذربائیجان کے سرحدی علاقے میں اپنے آذربائیجانی ہم منصب الہام علیوف کے ساتھ ایک ڈیم منصوبے کا افتتاح کرنے کے بعد واپس آرہے تھے کہ جنگلوں میں گھرے پہاڑی علاقے میں ان کا ہیلی کاپٹر حادثہ کا شکار ہوگیا۔ وزیر خارجہ حسین عبداللہیان ، آذر بائیجانی صوبے کے گورنر، عالم دین حجتہ اللہ الہاشم سمیت اعلیٰ حکام بھی ایرانی کے صدر ساتھ ہیلی کاپٹر میں سوار تھے۔ ہیلی کاپٹر کی کرپشن لینڈنگ کے بعد 40ریسکیو ٹیمیں بھیجی گئی تھیں مگر تلاش و تفتیش کے بعدشہادتوں کی تصدیق کر دی گئی ۔ 69سالہ ابراہیم رئیسی 2021ء میں ایران کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ وہ ایرانی رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کے جانشین تصور کئے جاتے تھے۔ ایران کے رہبر اعلیٰ نے 2019ء میں ابراہیم رئیسی کو عدلیہ کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ ماضی میں ابراہیم رئیسی ایران کی 88رکنی مجلس خبرگان رہبری کے نائب چیئرمین بھی منتخب ہوچکے تھے۔ یہی مجلس ایران میں رہبر اعلیٰ کا انتخاب کرنے کی ذمہ دار بھی ہے۔ ایران اور پاکستان ہمسایہ ممالک ہونے کے علاوہ صدیوں کے تاریخی ، روایاتی اور مذہبی بندھن میں جُڑے ہوئے ہیں جبکہ قیام پاکستان کے بعد ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم کیا۔ ایران اور افغانستان کے واقعات سے نہ صرف پاکستان متاثر ہوتا ہے بلکہ وہاں آنے والے بحران اور تبدیلیاں خطے پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں۔ ایرانی قیادت اپنے تدبر کے باعث کئی بحرانوں سے نبردآزما ہوچکی ہے اور توقع کی جانی چاہئے کہ ابراہیم رئیسی کی شہادت سے پیدا ہونے والے خلا کے باوجود تہران خطے میں پیدا ہونے والی بعض رکاوٹیں دور کرنے میں مثبت کردار ادا کرے گا۔ ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد سعودی حکومت نے ایک بیان میں واضح کردیا تھا کہ سعودی مملکت مشکل حالات میں برادر ملک ایران کے ساتھ کھڑی ہے اور ایرانی ایجنسیوں کو درکار ہر قسم کی مدد فراہم کرنے کے لئے تیار ہے۔ متحدہ عرب امارات کی جانب سے بھی ایران کے لئے ایسے ہی جذبات کا اعادہ کیا گیا تھا۔ پاکستان اور ایران گہرے برادرانہ تعلقات کے باوجود باہمی تجارت میں نمایاں اضافہ کرنے میں کامیاب نہیں رہے ۔ اب ابراہیم رئیسی کے دورے سے تجارت سمیت کئی شعبوں میں باہمی تعاون بڑھانے کے امکانات بڑھے ہیں تو ان سے فائدہ اٹھایا جانا چاہئے۔