شمشاد ایک عورت ہے۔ وہ قیام ِ پاکستان کے وقت مشرقی پنجاب میں جنسی درندگی کا نشانہ بنتی ہے۔ اس کے بعد وہ جان بچا کر پاکستان ہجرت کرتی ہے اور مغربی پنجاب میں بھی اس کے ساتھ یہی ظلم ہوتا ہے۔ پھر جب وہ کراچی کے عید گاہ میدان میں جھگیوں میں پناہ لیتی ہے تو یہاں بھی اس کے ساتھ یہی دل سوز سلوک ہوتا ہے۔
پہلے اسے غیروں نے لوٹا لیکن اس کی بے بسی اور مجبوری سے فائدہ اٹھانے والے اپنے بھی بہت تھے۔ عید گاہ میدان میں وہ بظاہر جھگی کے باہر پکوڑے بیچتی تھی لیکن پکوڑے بیچنے والی دوسری مظلوم عورتوں کی طرح اس کا اصل کام کچھ اور تھا۔ اپنوں کے ہاتھوں وہ طوائف بننے پر مجبور کردی گئی تھی۔
کہنے کویہ ایک پلاٹ ہے ایک کہانی کا، ایک طویل افسانہ یا ناولٹ کہہ لیجیے، جس کا نام ’’یا خدا ‘‘ہے ۔ لیکن یہ صرف شمشاد کی کہانی یاشمشاد نامی اس ایک عورت کا المیہ نہیں ہے۔ بقو لِ ممتاز شیریں یہ فسادات میں عورت کا المیہ ہے جس کا بیش بہا گوہر فسادات میں بے دردی سے لوٹ لیا گیا، پھر وہ متواتر اپنوں کے ہاتھوں لٹتی رہی یہاں تک کہ بے حس ہوگئی، اس کی روح مرگئی اور اسی کو اس نے اپنا ذریعۂ معاش بنا لیا۔
’’یاخدا ‘‘ایک المیے کا بیان ہے اور گہر ا طنز بھی ہے۔ اس کا موضوع آزادی کے بعد ہونے والے فسادات میں عورت کا المیہ تو ہے ہی، لیکن اس میں یہ طنز بھی ہے کہ جو ملک اسلام کے نام پر مسلمانوں کے لیے بنایا گیا تھا کہ یہاں مسلمان آزادی اور عزت سے رہ سکیں گے اس ملک کو جائے پناہ سمجھ کر ہجرت کرنے والی ایک مسلمان عورت کی عزت یہاں محفوظ نہیں رہی۔ بلکہ اسے طوائف بنادیا گیا۔
یہ تو صرف ایک شمشاد کی کہانی ہے ایسی کتنی ہی شمشادیں ہوں گی جو فسادات میں غیروں کے بدترین مظالم کا نشانہ بنیں اور پھر اپنوں نے ان کی مجبوری اور بے بسی سے فائدہ اٹھایا۔
’’یاخدا‘‘ انیس سو اڑتالیس میں چھپی۔ اس کے مصنف قدرت اللہ شہاب خود سرکاری افسر تھے۔ ادیب بھی تھے۔ اہم عہدوں پر رہے اور قیام ِ پاکستان کے بعد ہجرت کا فیصلہ کیا۔ کراچی اس نئے ملک کا دارالحکومت تھا۔
شہاب کو کراچی میں تعینات کیا گیا اور اس وقت کراچی بلکہ پورے پاکستان میں ہر طرف الم ناک کہانیاں بکھری پڑی تھیں۔ شہاب تک یہ کہانیاں پہنچیں ہوں گی اور کراچی اس وقت ایک چھوٹا سا شہر تھا جس میں عیدگاہ کی کہانی ایوانِ اقتدار تک پہنچنے میں کچھ زیادہ وقت نہیں لگا ہوگا۔ لیکن شہاب کا یہ طنز ایک بغاوت بھی ہے۔
ایک اعلیٰ سرکاری افسر ہوتے ہوئے سرکاری بد انتظامیوں اور بد عنوانیوں پر آواز اٹھانا بظاہر بغاوت ہے لیکن اس بات کا بیّن ثبوت بھی ہے کہ شہاب صرف سرکاری افسر نہیں تھے بلکہ ادیب بھی تھے۔ حساس دل رکھتے تھے اور انسانیت کا درد محسوس کرتے تھے ۔ بے شک وہ سچے پاکستانی تھے اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے باوجود اس ملک سے ان کی وفاداری آخری سانس تک غیرمتزلزل رہی۔ لیکن ملک کی خرابیوں پر کڑھتے بھی تھے کیونکہ اس ملک سے انھیں عشق تھا۔
لیکن ادبی نقطہ ٔ نظر بسا اوقات سیاسی نقطہ ٔ نظر سے مختلف ہوتا ہے۔ سچے ادبی تخلیق کار سیاست دانوں کے برعکس اپنے خیالات اور نظریات کی بنیاد وقتی حالات اور ’’سہولت ‘‘ پر نہیں رکھتے بلکہ وہ انسانیت کا درد محسوس کرتے ہیں۔ ان کی سوچ اصل میں سیاسی نہیں انسانی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات ان کے خیالات عام لوگوں کی سوچ سے مختلف محسوس ہوتے ہیں۔
انیس سوسینتالیس میں آزادی کے بعد ہونے والے ہول ناک فسادات اور خوں ریزی پر اردو میں بہت بڑی تعداد میں افسانے لکھے گئے ۔ بعض ناولوں میں بھی ان کا ذکر ہے۔ فسادات کے پس منظر میں لکھے گئے ان افسانوں اور ناولوں میں سے بیشترکا مرکزی خیال انسانی المیہ ہے اور ان میں اہلِ قلم انسانوں کی وحشت و بربریت پر دُکھی نظر آتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا فسادات، خون ریزی ، جنگوں اور انسانی المیوں کو ادب کا موضوع بنایا جاسکتا ہے یا بنایا جانا چاہیے؟ ممتاز شیریں اردو کی ایک ممتاز نقاد اور افسانہ نگار تھیں۔ انھوں نے اپنی کتاب ’’معیار‘‘ میں اس معاملے میں درست رائے دی ہے کہ ’’صرف خوں ریزی ، مار دھاڑ اور جسمانی تکالیف کی تفصیلوں سے اچھا ادب پیدا نہیں ہوسکتا ، گو اس دور کی تصویر پیش کرنی ہو تو یہ تفصیلیں دیے بغیر چارہ نہیں ‘‘ (ص ۲۰۲)۔
پھر لکھتی ہیں کہ فسادات پر ہمارے افسانوں میں اگر اجتماعی طور پر نہیں توانفرادی حالات کی عکاسی میں بلند جذبے اور انسانی کردار کی بلندی ملتی ہے ۔اور یہ کہ فسادات یا جنگ کے پس منظر میں لکھے گئے اچھے ادب میں صرف جسمانی تکایف کا بیان نہیں ہوتا بلکہ اس میں ذہن، قلب اور روح سب متاثر ہوتے ہیں اورہم جب ان فسادات کا ذکر کرتے ہیں تواس سے صرف خوں ریزی اور قتلِ عام مراد نہیں ہوتے بلکہ یہ انسانی المیے کا بیان ہوتا ہے، تمام پہلوؤں کے ساتھ۔
لیکن جو اہلِ قلم خود کو ترقی پسند کہلواتے تھے اور انسانیت کو سب سے بڑا مذہب قرار دیتے تھے ان کا رویہ ان انسانیت کُش فسادات پر کیا تھا؟ اس انسانی المیے کی ادب میں عکاسی انھوں نے انسانیت کے نقطۂ نظر سے نہیں کی بلکہ ایک خاص نقطۂ نظر اور سیاسی وابستگیوں کا لحاظ کرتے ہوئے کی۔ دراصل وہ ادیب اور شاعر جو خود کو ترقی پسند یا کمیونسٹ یا بائیں بازو سے تعلق رکھنے والا قرار دیتے تھے ان میں سے اکثر قیام ِ پاکستان کے مخالف تھے۔
اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ مذہب سے بیزار تھے اور پاکستان چونکہ مذہب کے نام پر بن رہاتھا اس لیے وہ پاکستان کے بھی مخالف تھے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ترقی پسند آزادی کے مخالف نہیں تھے ، وہ برعظیم پاک وہند کو انگریزوں سے تو آزاد کرانا چاہتے تھے لیکن ایک اسلامی ریاست کا قیام ان کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔
بعض ترقی پسندوں کی انتہا پسندی کا یہ عالم تھا کہ وہ روس اور کمیونسٹ پارٹی کی ہدایات کے مطابق ادب تخلیق کرتے تھے۔ ترقی پسندوں سے اختلاف کرنے والوں کو مطعون کیا جاتا تھا چاہے اختلاف کرنے والا خود ترقی پسند ہی کیوں نہ ہو۔ منٹو جب تک ترقی پسندوں میں شمار کیے جاتے تھے تب تک وہ عظیم فن کار اور بہت بڑے افسانہ نگار تھے لیکن جب وہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور انھوں نے فسادات میں ہونے والے بھیانک واقعات کی عکاسی ’’سیاہ حاشیے‘‘ نامی کتاب میں کی تو ان کو ترقی پسندوں کی صف سے نکال دیا گیا۔
سردار جعفری نے اپنی کتاب ’’ترقی پسند ادب ‘‘ میں منٹو کو ’’فحش اور سنسنی خیز ‘‘ کہانیاں لکھنے والا قرار دیا۔ لیکن منٹو کو مطعون کرنے والے ترقی پسندوں کی صف میں ممتاز حسین جیسے عالم فاضل ، متوازن سوچ کے حامل ترقی پسند اور دانش ور نقاد بھی تھے جو منٹو کو سیاہ حاشیے کے بعد بھی ترقی پسندمانتے رہے۔
دراصل سیاہ حاشیے کا دیباچہ محمد حسن عسکری نے لکھا تھا اور عسکری اور ممتاز شیریں نے منٹو کو سراہنا شروع کیا تو ان کے خلاف ترقی پسندوں نے باقاعدہ محاذ کھولا۔ ممتاز شیریں اور حسن عسکری ادیبوں سے مطالبہ کرتے تھے کہ انھیں اپنے وطن اور اس نو زائیدہ ریاست پاکستان سے وفادار ہونا چاہیے۔ ادیب بے شک حکومت کا وفادار نہ ہو لیکن اس کی ریاست سے وفاداری ضروری ہے۔ ممتاز شیریں نے ترقی پسندوں پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا کہ فسادات پر لکھے ہوئے ان کے افسانوں میں دانستہ طور پر ’’غیر جانب دار ‘‘ رہنے کی کوشش کی گئی ہے۔
گویا انسانیت سے زیادہ سیاسی عقائد کا خیال رکھا گیا ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے بطورِ خاص کرشن چندر کے افسانوں سے مثالیں دی ہیں اور کرشن کے افسانے پشاور ایکسپریس کا ذکر کیاہے جس میں دکھا یا گیا ہے کہ کس طرح آزادی کے وقت فسادات میں سرحد کے دونوں طرف برابر کی تعدا میں لوگ قتل کیے جاتے ہیں ۔ ممتاز شیریں کے بقول یہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ’’توازن ‘‘ برقرار رکھنے کی شعوری کوشش ہے۔گو یہ حقائق کے منافی ہے کیونکہ ان فسادات میں اصل نقصان مسلمانوں کا ہوا تھا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ آزادی کے بعد فسادات پر لکھے گئے اپنے افسانوں میں غیر جانب دار رہنے والے اورمظلوم کی حمایت کو ’’فرقہ پرستی‘‘ اور ’’قوم پرستی ‘‘ قرار دینے والے ترقی پسند کرشن چندر انیس سو باسٹھ میں ہونے والی چین بھارت جنگ میں پکے محب ِ وطن ہندوستانی اور قوم پرست بن گئے اور اس جنگ کے پس منظر میں لکھے گئے اپنے ناول ’’ایک گدھا نِیفا میں ‘‘ (نیِفا ہندوستان اور چین کی سرحد پر واقع ایک علاقہ ہے)وہ سارا الزام چین پر ڈالتے نظر آتے ہیں۔
اس ناول میں مرکزی کردار گدھا جب چینی وزیر اعظم چو این لائی سے گفتگو کرتا ہے تو تبت کے حق میں کرشن چندر اس سے ایسی تقریر کرواتے ہیں کہ ناول کا یہ حصہ ادب کم اور کسی قوم پرست اخبار کا اداریہ زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ کرشن یہ بھی بھول گئے کہ چین ان کی طرح کمیونسٹ اور سوشلسٹ ہے۔ گویا ریاست سے وفاداری ہر چیز پر غالب آگئی لیکن جب ممتاز شیریں اور حسن عسکری ادیبوں سے ریاست سے وفاداری کا مطالبہ کرتے ہیں تو ترقی پسندوں کو یہ بہت گراں گزرتا ہے۔
’’یاخدا ‘‘ان یادگار تحریروں میں سے ہے جو فسادات کے موضوع پر لکھی گئیں اور ان میں سیاسی وابستگی یا ’’سہولت ‘‘ کے بجائے انسانیت کا درد نظر آتا ہے۔ کاش ہماری نئی نسل اردو ادب کے ان شاہ کاروں کا سنجیدگی سے مطالعہ کرے۔