• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اصلاح احوال کے مدبرین حالات کی ستم ظریفی پہ ماہی بے آب کی طرح تڑپے جارہے ہیں۔ میرے سابق رپورٹ کارڈ کے سابق رفیق محترم ایئرمارشل شہزاد چوہدری نے قابو سے باہر ہوتے ہوائی جہاز کو زمین بوس ہونے سے بچانے کیلئے جہاز کو غوطے سے بچانے کی دہائی دی ہے، اس سے پہلے کہ پرواز بحال ہو۔شاید یہ ایک ایئرمین اور سولجر کے ادراک کا فرق ہو ۔اور ہمارے محترم مدیر سہیل وڑائچ کی ترک افیون گولیوں کا خریدار کوئی نہیں۔ سیاسی معیشت دانوں کے گھریلو نسخوں کی آئی ایم ایف کے فریم ورک میں گنجائش نہیں۔ جو فکری تان ثاقب شیرانی نے اپنے ڈان کے کالم میں توڑی تھی اسے حکمران مال بٹور و کرایہ خور طبقہ (Extraction Elite) اپنی قیمت پر سوچنے پہ کیوں مائل ہوتا۔ اب کوئی کسے سمجھائے کہ پاکستان میں فوجی، نیم فوجی، سویلین، نیم سویلین اور عوامی ماڈلز کیوں ناکام رہے، جبکہ یہ سبھی اُن جگہوں پہ کامیاب رہے، جہاں مفت خور طبقہ موجود نہ تھا۔ ہمارے ہاں تو اس مفت خور طبقے کا وائرس ریاست و سماج کے رگ و پے میں اتنی سرایت کرچکا ہے کہ اس پیر تسمہ پا سے نجات عوامی انقلاب بنا ممکن نہیں۔ یہ ہر جماعت، ہر ادارے اور ہر بااثر طبقے میں موجود ہے۔ ہمارے دوست شہزاد چوہدری ہوں یا سہیل وڑائچ انکی تزکیہ نفس کی دعائیں رنگ لانی ہوتیں تو عزیزم مولانا فضل الرحمان کسی غار میں چلہ کاٹنے کی بجائے سڑکوں پہ کیوں ہوتے۔ (سنا ہے سنی گئی یا پھر سنی ان سنی رہ گئی، اللہ جانے)۔ لیکن یہ مظلوم و محروم تحریک انصاف اور اسکے جواں مرد قائد کے سوشل میڈیا پہ کیا نراج مچا ہے۔’’مرشد‘‘تو فوجی قیادت سے بات کرنے پر مصر ہے، سیاسی حریفوں سے نہیں۔ تو پھر 1970 کی شکست کی تلخ یاد دلانے سے یا پھر سقوط ڈھاکہ کو دہرانے کے اشتعال کا پاکستان کے موجودہ حالات سے کیا تعلق جبکہ پی ٹی آئی پنجاب اور پختونخوا کی بڑی جماعت ہے جہاں پاک افواج کی نسلیاتی جڑیں ہیں۔ انگریزی محاورہ ہے: اپنا ناک کاٹ کر منہ پر لگا دھبہ صاف ہونے سے رہا (Cutting off one's nose to spite one's face) اگر معاملہ پاکستان کے عوام کی جمہوری مزاحمت سے ناطہ جوڑنے کا ہے تو آمرانہ قوتوں سے اپنے دیرینہ تعلق پہ نادم ہوئے بنا جمہوری غسل ممکن نہیں اور خاص طور پر جب آپ اب بھی تمام تر زیادتیوں کے باوجود بیمار ہوئے جس کے سبب۔ اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے پہ بضد ہیں۔ یعنی جمہوریت کی فتح اور آئین کی بالادستی کی بجائے تیسرے ہائبرڈ نظام کی استدعا! اس موہوم خواہش پہ فارمیشن کمانڈرز کے 9 مئی کے ملزموں کو کیفر کردارتک پہنچانے کے عزم نے پانی پھیر کر مفاہمت کے امکان کو مسترد کردیا ہے۔

ایک وقت تھا جب غیر جمہوری حکمرانوں کے خلاف، اچھا بھلا یا برا بھلا جمہوری محاذ اور اسکے گرد فعال جمہوری قوتیں ہوتی تھیں۔ کبھی بے نظیر بھٹو علم جمہوریت بلند کرتے شہید ہوئیں، تو نواز شریف ووٹ کو عزت دو کی بات کرتے کرتے خاموش ہوتے دکھائی دئیے اور اب بلاول بھٹو پردے سے غائب ہوئے لگتے ہیں۔ لیکن اس وقت بھی تحریک انصاف اور اس کے بانی مزاحمت کا پرچم بلند کیے نظر آتے ہیں۔ لیکن طاقتور اداروں سے مڈ بھیڑ اور اسکے نتیجہ میں نوکر شاہانہ مفاہمت سے تاکہ مخالفین یا اختلاف کرنے والوں کی سات نسلوں کو المناک انجام سے دوچار کرنے کا انصاف کیا جاسکے۔ یہ جمہوری جذبہ یا اصول نہیں! انتقام یا فسطائیت ہے۔ لیکن جمہوریت پسند مجبور ہیں کہ عوام کے حق رائے دہی اور حق اقتدار، انسانی و شہری حقوق اور حق اظہار کیلئے مسلسل اور بلا تفریق آواز بلند کرتے رہیں، بھلے انکی قسمت میں لہو سے لتھڑی ہوئی ایک اور صبح کاذب کیوں نہ ہو۔ لیکن میرے بائیں بازو کے ساتھی ایسی احمقانہ بورثوا سیاست کیلئے مرمٹنے پہ کیوں راضی ہونگے۔ پاکستان کا موجودہ سیاسی بحران کوئی نیا نہیں۔ حق رائے دہی اور عوامی منشا کے ساتھ جو سلوک 2024 میں ہوا، بالکل ویسا ہی 2017-2018میں ہوا۔ اور جو 1970 اور 1977-78 میں ہوا، وہ ایک خونچکاں داستان ہے جسکا کہ میں ایک راوی ہی نہیں بلکہ مزاحمتی جمہوری کارکن بھی رہا ہوں تاآنکہ بی بی جمہوریت سے ملن کی چاہ رکھتے ہوئے، اسکے ملنے کی اُمید کھو بیٹھا ہوں۔ ہر کسی نے جمہوریت کو ڈسا بھی، پایا بھی اور کھویا بھی۔ اور اب اسکا کوئی والی وارث بھی نہیں بچا۔ براہ راست فوجی آمریت کی نصف تاریخ کے ساتھ ساتھ جمہوری وقفے اور سویلین بد معاشیوں کے ادوار میں ایک آدھ ضمنی استثناؤں کے علاوہ اس اُجڑی سیاسی تاریخ میں کہیں کوئی روشن باب اُبھرا بھی تو پھاڑ پھینکا گیا۔ بعداز ضیا آمریت میں جمہوری حکومتوں کو چلنے نہ دیا گیا اور بعد از مشرف دور میں سویلین حکومتوں کا دائرہ کار سکڑتا چلا گیا۔ جوہائبرڈ تجربات ہوئے وہ ناکام ہوئے اور جو تجربہ اب ہورہا ہے وہ محض پردہ اسکرین پر کٹھ پتلیوں کا تماشہ ہے۔ تاریخ میں ایک بار بھٹو صاحب کو نادر موقع ملا تھا جسے سولی پہ چڑھادیا گیا۔ اب ایک اور موقع ملا ہے جو ایسے اناڑیوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے جن کی کوئی حکمت ہے نہ منزل۔

حالانکہ پاکستان کی جدید نوآبادیاتی ریاست کا ڈھانچہ جدید ہے، لیکن اسکی روح پہ ماضی کی بدروحوں کا قبضہ ہے۔ سوویت محققین کی رائے تھی کہ اگر پاکستان میں کوئی ریاستی نظام کو برقرار رکھنے کا ادارہ ہے تو وہ پاک فوج ہے۔ حمزہ الوی اسے ریاست کا زیادہ ترقی یافتہ ڈھانچہ قرار دیتے ہیں، جبکہ مغربی مصنفین اسے ایک گیریژن ریاست یا مارشل اسٹیٹ گردانتے ہیں۔ اب تو میڈیا بھی ریاست کے لفظ کو پاک فوج کے متبادل کے طور پر استعمال کرتا ہے اور اس پر خود پاک فوج بھی معترض نہیں۔ بڑائی کسےبری لگتی ہے، بھلے سارا بوجھ ہی انتظامیہ کی ایک وزارت کے ایک محکمے کے سرآن نہ پڑے۔ بحران یہ نہیں کہ ایک حکومت گئی، دوسری آئی اور تیسری آنے کیلئے ہاتھ پھیلا بھی رہی ہے اور ہاتھ کاٹ بھی رہی ہے۔ دراصل موجودہ بحران ایک دوہرے نظام کا اندرونی بحران ہے۔ ایک طرف ڈی جیور آئینی نظام ہے جسکی اطاعت کی سب قسم کھاتے ہیں، دوسری طرف ڈی فیکٹو پاور اسٹرکچر ہے جسکی عملاً راجدھانی ہے۔ اب سیاستدان تو تائب ہوئے یا مفاہمت کے طلبگار۔ ججوں کے پاس فوجی بریگیڈ نہیں کہ آئینی احکام پر عمل کراسکیں۔ لے دے کہ بس پاک فوج میدان میں رہ جاتی ہے جسے فیصلہ کرنا ہوگا کہ پاور اسٹرکچر کیسے آئینی آداب کا احترام کرے۔ وگرنہ یہ دھینگا مشتی چلتی رہے گی۔ ایک ایئرمین کی رائے کو کیا سولجر بھی سمجھ پائیں گے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین