• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کے مذموم عزائم کی تکمیل پر تاریخ سسکیاں لے کر رونے کے علاوہ کیا لکھے گی؟ یہ لکھے گی کہ اس عہد طے شدہ منصوبے کے تحت اداروں کو تباہ کیا گیا، فوج کو طبقوں اور درجوں میں اور عدلیہ کو پسند نا پسند کی بنیاد پرتقسیم کرنے کی کوشش کی۔سی پیک کا منصوبہ ختم کرایا گیا اور حکومتی سطح پر قومی ایئرلائن پی-آئی-اے کے پائلٹوں پر جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر ملازمتیں حاصل کرنے کے الزامات عائد کرکے قومی ایئر لائین بند کرانے کے اسباب پیدا کئے، مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے لئے نریندر مودی کی مدد کی اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کی نفرتیں سمیٹیں اور تاریخ جلی الفاظ میں لکھے گی کہ اس عہد میں نوجوان نسل کو گمراہ کرکے تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیا، بدزبانی اور بے حیائی کا کلچر متعارف کرایا گیا اور دفاع کی آہنی دیواروں میں دراڑیں ڈالی گئیں اور قومی سیکیورٹی کے لئے خطرات کھڑے کئے گئے۔کیا حالات کا رخ ایک نئے 9مئی کی جانب ہے؟ کیا عمران خان کی شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ موازنہ اور تقابلی جائرہ کی بنیاد پر عمران خان کے آفیشل X پر اپ لوڈ کیا جانے والا " پیغام" عوام کو عمومی اور "یوتھیوں" کے لئے خصوصی پیغام انہیں بغاوت پر اکسانے کے مترادف نہیں؟ ان حالات میں گزشتہ کئی دہائیوں سے عدل محکوم و مفلوج دکھائی دیتا ہے جو ریاست دشمن عناصر کی حوصلہ افزائی کا سبب بن رہا ہے۔ 9 مئی کو درگزر کرکے آگے بڑھنے کی پیش کش کرنے والی پی-ٹی-آئی کی اعلیٰ قیادت عمران خان کی اداؤں پر بھی غور کریں جو حکومت اور اسٹبلشمنٹ کی جانب سے گرین سگنل کے باوجود آگ کو ٹھنڈا کرنے کے حق میں نہیں اور بار بار اشارہ کر رہے ہیں کہ وہ شیخ مجیب الرحمٰن کے پیروکار ہیں اور ان کے نقش قدم پرچلنے کے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تیار ہیں۔کیونکہ 27مئی کو ٹیوٹر کے ذریعے "اعلان بغاوت" اب بھی عمران خان کے آفیشل X پر موجود ہے۔ عمران خان سمیت تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کو حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کی اشاعت کی ضرورت کیوں پیش آئی اور 2018 سے 2022 کے چار سالہ دور میں کیوں نہیں جب ان کی پارٹی برسر اقتدار اور سیاہ و سفید کی مالک تھی۔پی-ٹی-آئی کی مرکزی قیادت نے اعتراف کیا ہے سوشل میڈیا ٹیم پاکستان کے باہر سے آپریٹ ہورہا ہے اس لئے اس کے ہینڈلر کسی کے کنٹرول میں نہیں۔گزشتہ جمعرات کو منعقد ہونے والے فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کے دوران عسکری قیادت نے شاید مستقبل کے خطرات کو بھانپتے ہوئے ڈیجیٹل دہشتگردی Digital Terrorism کو پھیلنے سے روکنے اور 9 مئی کی تخریب کاری میں براہ راست شریک دہشتگردوں، سہولت کاروں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے لانے کی ضرورت پر زور دیاہے ہے۔ ادھرتحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے بانی پی-ٹی-آئی- کی ریاست دشمن سوچ پر پردہ ڈالنے کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود عمران خان کی اس حرکت کا دفاع کرنے میں ناکام رہے۔کاشف عباسی کے ٹاک شو میں تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان رؤف حسن بانی پی-ٹی-آئی کا تحفظ کرنے اور اس حوالے سے سوالوں کی بوچھاڑ کا سامنا نہ کر سکے لیکن پارٹی کی کور کمیٹی کی میٹنگ کے بعد اڈیالہ جیل سے نمودار ہونے والے اشاروں کے تناظر میں یوں لگتا ہے کہ پی-ٹی-آئی عمران خان 9 مئی دہرانے کی تیاریاں مکمل کرچکے ہیں۔عمران خان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا بیانیہ پھیلانے کے بعد باغیانہ روپ دھارنے اور ریاست کے خلاف اپنا مؤقف مضبوط انداز میں پھیلانے کے عمل کی ابتدا کر چکے ہیں۔بعض انٹیلی جنس ایجنسیوں کا خیال ہے کہ عمران خان جیل میں رہ کر "باغیانہ تحریک" چلانا بہتر اور مؤثر خیال کرتے ہیں اور اس موقع کو گنوانا بدترین سیاسی غلطی تصور کرتے ہیں۔عمران خان کا گمان ہے کہ وہ عدلیہ کو پسند ناپسند کی بنیاد پر تقسیم کرنے میں ایک بار پھر کامیاب ہو گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ "باغیانہ تحریک" کی ابتدائی منصوبہ بندی کے ساتھ ہی اڈیالہ جیل سے ایک اور شوشہ چھوڑا گیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ تحریک انصاف یا اس کے بانی کے خلاف سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمات سے علیحدہ ہو جائیں، تحریک انصاف کے اس بیانیہ کو "شوشہ" اس لئے بھی کہا جاسکتا ہے کہ پی-ٹی-آئی معتبر حلقوں کی جانب سے اس بیانیہ کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی ریاست دشمن حرکت سے قبل عمران خان اسٹبلشمنٹ، حکومت یا عوامی حلقوں کی جانب سے اٹھنے والے ردعمل کی سنگینی کا اندازہ کرنے کے لئے اس قسم کے شوشے چھوڑتے ہیں اور اگر ردعمل معمولی یا قابل برداشت ہو تو امریکہ، ساؤتھ افریقہ اور بھارت سمیت کئی بیرونی ممالک سے آپریٹ کیا جانے والا سوشل میڈیا حرکت میں آجاتا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے دفاعی حکمت عملی پر مجبور ہو جاتے ہیں اور ساری گیم عمران خان کے کنٹرول میں آجاتی ہے اور عمران خان 9 مئی کی طرح وہ کچھ کر گزرتے ہیں جس کے بارے میں کوئی پاکستانی تصور بھی نہیں کرسکتا۔

تازہ ترین