• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مفقود الخبر کی زوجہ کب تک اس کا انتظار کرے (گزشتہ سے پیوستہ)

تفہیم المسائل

صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی ؒ ’’ فتاویٰ امجدیہ‘‘ کے حاشیے میں جو یا تو ان کا اپنا املا کرایا ہوا ہے یا اُن کے تلمیذ ِرشید اور نائب خصوصی مفتی اعظم ہند علامہ محمد شریف الحق امجدیؒ کا تحریر کردہ ہے:’’لیکن اگر شوہر کے مفقود الخبر ہونے کی وجہ سے عورت دوسری شادی پر اتنی مجبور ہو جائے کہ دوسرا کوئی چارۂ کار نہ ہو ،حالتِ مُلجئہ پیدا ہوجائے، تو ہمارے علماء نے امام مالک ؓ کے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت دی ہے،خصوصاً اس پُر فتن دور میں ہمارے علماء کا تقریباً اس پر اتفاق ہے کہ اس خصوصی مسئلے میں امام مالکؓ کے مذہب پر فتویٰ دیا جائے۔

مگر اس خصوص میں چند باتیں قابلِ لحاظ ہیں :اوّل یہ کہ مذہبِ امام مالکؓ یہ نہیں کہ شوہر کے غائب ہونے کے دن سے چار سال گزار کر شوہرکی وفات کا حکم دیا جائے، بلکہ یومِ قضاء سے، یعنی جس دن قاضی لاپتا شوہرکی موت کا حکم لگائے چار سال انتظار کرنا ضروری ہے، جیسا کہ فتاویٰ رضویہ، جلد5، ص:500 پر کتاب مُدَوَّنہ کے حوالے سے مذکور ہے، دوسرے یہ کہ اس کے لیے قضائے قاضی شرط ہے ،درمختار میں ہے: ترجمہ: شوہر کی موت کا حکم قضائے قاضی سے دیا جائے،کیونکہ یہ ایک ایسامعاملہ ہے جو دوسری جہت (زندگی)کا بھی احتمال رکھتاہے، تو جب تک اس کے ساتھ قاضی کا فیصلہ نہیں ملے گا، یہ حجت نہیں ہوگا،(جلد:3،ص:331،کتاب المفقود ، نعمانیہ)‘‘۔

اس زمانے میں جب کہ یہاں حاکم ِ اسلام نہیں ،علمائے بَلَد، جو مرجع فتویٰ ہوں، اس خصوص میں قاضی کے قائم مقام ہیں،واللہ تعالیٰ اعلم(فتاویٰ امجدیہ دوم، ص:91)‘‘۔یہ ہندوستان کے تناظر میں ہے ۔

مختصر یہ کہ انتہائی مجبوری کی حالت میں جب عورت کے لیے اپنے نفس پر قابو پانا دشوار ہوجائے ،اُسے خدشہ ہو کہ بشری کمزوری کی بناء پر وہ حرام میں مبتلا ہوجائے گی ،تو ایسے موقع پر امام مالک کے مذہب پر فتویٰ دیا جاسکتا ہے یا قاضی فیصلہ دے سکتا ہے ،شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعیدی ؒ نے شرح صحیح مسلم، جلد: ثالث، صفحات: 1095تا 1120میں اس مسئلے پر مفصّل ومدلّل بحث کی ہے اور لکھا ہے: آثارِ صحابہ بھی اس سلسلے میں موجود ہیں اور چونکہ امام اعظم ابو حنیفہؒ نے اثرِ صحابہ کو اپنی اجتہادی رائے پر ترجیح دی ہے، اس لیے التزاماً اسے مذہب ِ حنفی کے مطابق بھی کہا جاسکتا ہے اور جیسا کہ امام مالکؓ کے قول سے ثابت ہے اور صدر الشریعہ مولانا امجد علی نے لکھا: وہ عورت جس کا خاوند مفقودالخبر (لاپتا ) ہے، جب عدالت سے رجوع کرے گی ،تو قاضی اس کی تلاش کے تمام ذرائع اختیار کرنے کے باوجود لاپتا رہنے پر اس کی وفات کا حکم دے گا اور اس وقت سے وہ عورت چار سال اور عدت وفات گزارنے کے بعد کسی دوسرے شخص سے عقد کرسکے گی۔

خلاصۂ کلام یہ کہ ہمارے وطنِ عزیز میں لاپتا اشخاص کا مسئلہ کافی پیچیدہ اور گمبھیر ہوچکا ہے ، اس انسانی مسئلے کی متعدد جہات ہیں، ان میں ایک مفقودالخبر یعنی لاپتا شخص کی منکوحہ کا مسئلہ بھی ہے ،لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ اس مسئلے کی بابت خصوصی شرعی عدالت قائم کرے ،ا س میں سول جج کے ساتھ ایک ثقہ مفتی بھی بٹھایا جائے ،جب کوئی متاثرہ فریق اُس عدالت سے رجوع کرے، تو عدالت حکومت کو پابند کرے کہ قومی ذرائع ابلاغ کے ذریعے اعلان کرے اورجب چارسال میں اس کا اتاپتا نہ ملے توعدالت اُس کی موت کاحکم لگائے اورمنکوحہ بیوہ چار ماہ دس دن کی عدت وفات گزرنے کے بعد کہیں بھی نکاح کرنے کے لیے آزاد ہوگی۔

نیز ہماری دردمندانہ گزارش ہے کہ حساس علاقوں میں علماء اور قبائلی سرداروں پر جرگہ بھی اس ضابطے کی توثیق کرے تاکہ یہ انسانی مسئلہ بھی حل ہواور بعدمیں نہ پیچیدگیاں پیدا ہوں اور نہ قبائلی عصبیت کی بنیاد پر تنازعات پیداہوں۔

علامہ سعیدی نے ایک اور امکانی صورت پر بھی بحث کی ہے کہ اگر ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد عورت کسی شخص سے نکاح کرلیتی ہے اور پھر تقدیرِ الٰہی سے وہ شخص واپس آجاتا ہے تو کیا کیا جائے ،چنانچہ وہ لکھتے ہیں :’’جب مفقود (لاپتا شخص)لوٹ آئے اور یہ ظاہر ہوجائے کہ وہ زندہ ہے اور ابھی دوسرے شوہر نے اُس کی منکوحہ سے نہ مقاربت کی تھی اور نہ اُس کو مفقود کے زندہ ہونے کا پہلے سے علم تھا ،تو اب یہ مفقود کی زوجہ ہے ،خواہ دوسرانکاح ہوچکا ہو۔ 

اگر دوسرے شوہر کو مفقود کی حیات کا علم تھا،تو اس نے مقاربت کی ہو یا نہ کی ہو، مفقود کے لوٹ آنے کے بعد وہ مفقود کی بیوی ہوگی۔ اور اگر یہ معلوم ہوجائے کہ مفقود ، دورانِ عدت فوت ہوا ہے یا عدت کے بعد دوسرے نکاح سے پہلے فوت ہوا ہے یا عقد کے بعد مقاربت سے پہلے فوت ہوا ہے تو وہ عورت مفقود کی وارث بھی ہوسکتی ہے اور اگر مقاربت کے بعد فوت ہوا ہے ، درآں حالیکہ دوسرے شوہر کو اُس کی حیات کا علم نہیں تھا ،تو اب یہ وارث نہیں ہوگی،(شرح صحیح مسلم، جلد: ثالث، ص: 1107،مطبوعہ :فرید بک اسٹال، لاہور)‘‘۔