آج نریندر مودی تیسری بار وزیراعظم کا عہدہ سنبھالیں گے، لیکن اس بار بھارتیہ جنتا پارٹی کی اکثریت (240 اراکین) کی بنیاد پر نہیں بلکہ نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس کی (290) کی حمایت کی بنیاد پر اور ایسی دو جماعتوں کے سر پر جنکے لیڈر آندھرا پردریش کے چندر بابو نائیڈو (تلیگو دیشم پارٹی) اور بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار (جنتا دل یونائٹڈ) کے 28اراکین کی ناقابل انحصار حمایت کی بنیاد پر۔ 2024کا انتخاب بھارتیہ جنتا پارٹی نے مودی کی گارنٹی کی بنیاد پر چارسو پار نشستوں کے ٹارگٹ کیلئے لڑا تھا۔ بھارت کے بڑے گجراتی کارپوریٹ سیکٹر (اڈانی، امبانی) پورا بھارتی الیکٹرانک (گودی) میڈیا اہم ریاستی ادارے اور راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS) کے دسیوں لاکھ سیوکوں کی ہمہ گیر انتخابی مشینری کی مدد سے طویل ترین انتخابی مہم اور اینٹی مسلم، اینٹی پاکستان اور ہندتوا کے ایجنڈے کی نفرت انگیز مہم کے باوجود بھارتیہ جنتا پارٹی 2019 کے انتخابی نتائج (303 نشستیں) کے مقابلے میں 61 نشستیں ہار بیٹھی۔ اس بار علاقائی جماعتیں (مغربی بنگال کی ترنامل کانگریس، تامل ناڈو کی ڈی ایم کے، مہاراشٹرا کی اودھے بالا ٹھاکرے کی شیو سینا اور جاتی واد جماعتوں میں یوپی کی سماج وادی پارٹی اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں نے بھاجپا کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ حزب اختلاف کے متحدہ محاذ (INDIA) نے کانگریس کے نیتا راہول گاندھی کی قیادت میں مودی کے تیسری بار اپنے بل بوتے پر منتخب ہونے کے دعوے کو دھول چٹا دی۔ یادیووں، دلتوں، بنگالیوں، دراوڑوں، کسان جاٹوں اور مسلمانوں کے بلاک نے بالائی طبقوں کے مذہبی نفرت انگیز ایجنڈے کو پوری نہیں تو بہت بڑی شکست سے ہمکنار کر دیا، اس بار جہاں انڈیا اتحاد کے ووٹ اگر ہر جگہ بڑھے تو ہندی پٹی میں ہر جگہ ہندتوا کے ووٹ 6 سے 11 فیصد کم ہوئے۔ خود کانگریس کے اراکین کی تعداد دوگنی سے زیادہ بڑھ کر 99ہو گئی اور اسکا اتحاد 235ووٹ حاصل کرکے اخلاقی جیت حاصل کر پایا اور مودی کا این ڈی اے 290 کی اکثریت حاصل کرنے کے باوجود ہارا ہوا لگا۔ دس برس کے دو انتخابات میں بری طرح سے شکست پانے کے بعد سیکولر قوتوں نے جم کر ہندتوا کا مقابلہ تو کیا لیکن ہندتوا کے خوف میں کانپتی ٹانگوں کے ساتھ۔ لیکن وسیع طبقاتی، مذہبی و نسلیاتی تقسیم کے ماحول میں جس طرح راہول گاندھی، ممتا بینرجی، اکلیش یادیو، استالن اور لیفٹ نے محروم جاتیوں، مسلمانوں اور مظلوم طبقات کا دفاع کیا اس نے ہندتوا کے طوفان کو فی الوقت روک دیا ہے۔ اب نئی مخلوط حکومت میں بھاجپا (BJP) اپنے ہندتوا کے ایجنڈے کو مزید آگے بڑھانے میں کامیاب نہ ہوسکے گی اورمودی اپنے اتحادیوں کے رحم و کرم پر ہوگا۔ ہندتوا کی شکست کا اندازہ ایودھیا کی رام جنم بھومی میں کیا جاسکتا ہے، جہاں ابھی جنوری میں زیر تعمیر رام مندر کا عظیم الشان افتتاح کیا گیا اور جہاں فیض آباد کی نشست میں 80فیصد ووٹرز ہندو ہیں، ایک دلت اُمیدوار نے بڑے رام سیوک کو زبردست شکست سے دوچار کردیا، جنتا نے رام کی جگہ روٹی کو ووٹ دینا غنیمت جانا۔ شمالی ہندوستان یا ہندو پٹی میں خاص طور پر یوپی میں بھاجپا کی شکست سے ظاہر ہوا کہ ہندتوا کےبخار اور مسلم ہندو کی تقسیم سے عام جنتا نالاں دکھائی دی۔ اس بار رام مندر چلا نہ مسلمانوں کی تضحیک اور نہ پاکستان دُھنائی کسی کام آئی اور مودی اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ جبکہ ادھ موئی کانگریس کی روح میں جواں سال راہول گاندھی نے بھارت کے طول و عرض میں بھارت جوڑو یاترا چلا کر اور انتخابی مہم میں کمیونل مخالف آئینی و سیکولر اور غریب نواز سوشل لبرل ایجنڈے سے جان ڈال دی۔ راہول نے اڈانی مودی گٹھ جوڑ کو ننگا کرنے اور طبقاتی خلیج کو پاٹنےکیلئے جو ترقی پسند سماجی ایجنڈا دیا اسے بڑی پذیرائی ملی۔ لیکن بی جے پی جسکا جنوب میں کبھی کھاتہ نہ کھلا تھا، شکست کے باوجود اپنے ووٹ بڑھانے میں کامیاب رہی۔ انتخابی مہم کے خاتمے پر جو ایگزٹ پول آئے سب کے سب بھاجپا کی ملی بھگت سے چار سو پار سے جیت کی شنید دیتے دکھائی دئیے، ان کا بھانڈا ایک سیاسی کارکن اور انتخابی جائزوں کے پرانے ماہر یوگندر یادیو نے ایساپھوڑا کہ سارا مین اسٹریم میڈیا بری طرح سے ایکسپوژ ہوگیا ۔
بھارت میں 33برس تک کانگریس کی حکومت رہی پھر 25 برس مخلوط حکومتوں کا زمانہ رہا جن میں ترقی بھی ہوئی اور ہمسایوں بشمول پاکستان سے تعلقات بھی بہتر ہوئے اور گزشتہ دس برس مودی کی راجدھانی رہی جس میں 2019کا انتخاب پلوامہ کے ڈرامے اور پاکستان سے سرحدی جھگڑے کو ہوا دیکر جیتا گیا۔ اب کی بار ہندتوا اور مودی کا کوئی پاپولر پتہ کام نہ آیا۔ اب بڑا سوال یہ ہے کہ کیا این ڈی اے کی مخلوط سرکار چل پائیگی یا پھر مودی متحدہ محاذ کے شراکت داروں کے نئے نئے تقاضے اور اتحادی نیتاؤں کے نخرے اُٹھا پائیں گے۔ عام خیال ہے کہ مودی متحدہ محاذ کے لچکدار رہنما نہیں ہیں اور انکے شخصی جادو کا سحر ٹوٹ گیا ہے۔ بلکہ ہوا یہ ہے کہ بھارت، ہندوراشٹرا بننے سے بچ گیا ہے، گوکہ سیکولر قوتیں اب بھی ہندو اکثریت کے دباؤ میں ہیں۔ لیکن عظیم تر کثرت کا ہندوستان یک رُخہ، یک مذہبی اور یک قوم نہیں ہوسکتا جسے بھارت کے لوگوں کی بھارتی اکثریت بشمول ہندوؤں کی بڑی اکثریت جو اندرونی طور جاتی واد اور علاقائی بنیاد پر منقسم ہے قبول نہیں کرسکتی۔اب ایک واضح سیکولر، جمہوری، وفاقی اور عوامی (غریب نواز) بیانیے اور ایجنڈے کی ضرورت ہے جسکے ان انتخابات کے بعد امکانات بڑھ گئے ہیں۔ مودی کا سورج غروب ہونے کی طرف ہے اور ہندو پریوار اب کسے آگے لائے گا، اسے شاید کچھ وقت لگے، لیکن مودی اپنی مدت پوری کرتے دکھائی نہیں پڑتے۔ بھارت ابھی بھی دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے، اسکے باوجود یہ ایک بڑا غریب ملک ہے جس کی فی کس آمدنی (2500 ڈالرز) جنوبی کوریا سے بارہ گنا (35000 ڈالرز) کم ہے۔ 80کروڑ لوگوں کو بھوک سے بچنےکیلئے راشن چاہیے اور ہر سال کروڑوں نوکریاں بھی، جس طرح اور سکیل کی علاقائی اور طبقاتی تقسیم بھارت میں ہے، اسے پاٹنےکیلئے ہندوستان کو جارحانہ ہمسائیگی کے بجائے موافقانہ و دوستانہ ہمسائیگی کی ضرورت ہو گی۔ کشمیر میں آرٹیکل 370کے خصوصی اسٹیٹس کے خاتمے سے کچھ حاصل نہ ہوا، جہاں اس بار ریکارڈ ووٹ پڑے ہیں لیکن بی جے پی وادی کشمیر کی تین نشستوں پہ اپنا اُمیدوار تک کھڑا نہ کر پائی اور دونوں سابق چیف منسٹر بھی شکست کھاگئے ہیں۔ اب وقت ہے کہ دونوں ہمسایہ ملک باہمی تعاون کی راہ لیں اور اچھے مستقبل کی راہ نکالیں۔ کمزور مودی کو وزیراعظم منتخب ہونے پر زیتون کی شاخ بھیجنے کا تحفہ موقع کی مناسبت سے عمدہ رہے گا۔