• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زراعت، خدمات اور املاک، حکومت پاکستان صوبائی ٹیکسز کا معاملہ فکس کرے، آئی ایم ایف

اسلام آباد ( مہتاب حیدر) آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ صوبائی ٹیکسز بالخصوص زراعت، خدمات پر سیلز ٹیکس اور املاک پر ٹیکس کو فکس کرے۔ صوبوں سے ریونیو سرپلس پیدا کرنےکے حوالے سے صوبائی ٹیکسز انتہائی اہمیت حاصل کر گئے ہیں کیونکہ چاروں صوبوں کا مشترکہ حصہ جی ڈی پی کا انتہائی کم حصہ ایک فیصد سے بھی کم پر کھڑا ہے۔ آئی ایم ایف نے صوبوں اور مرکز کے مابین معاملات کو ہم آہنگ کرنے کیلیے نیشنل ٹیکس کونسل کے استعمال کی تجویز دی ہے۔ آئی ایم ایف کا تخمینہ ہے کہ صوبائی ٹیکسز کی وصولیوں کا پوٹینشل زیادہ ہے تاہم چونکہ پالیسی میں یکسانیت نہیں جبکہ انتظامیہ بھی اس وصولی کے پورے امکانات برتنے سے روکتی ہے اس کے علاوہ بھی ہر قسم کی رکاوٹیں اور عدم مساوات تخلیق کی جاتی ہے۔ جہاں نیشنل ٹیکس کونسل کی پیشرفت اپنے مقاصد اور امکانات حاصل کر رہی ہے ان کی رفتار اگرچہ نسبتاً کم ہے لیکن اس نے حوصلہ افزانتائج حاصل کیے ہیں اور اتفاق رائے کے حصول کے استعمال کےلیے تیار یہ فورم صوبائی ٹیکسز کے معاملات پر وسیع تراتفاق رائے حاصل کر سکتا ہے۔ آئی ایم ایف نے سفارش کی ہے کہ نیشنل ٹیکس کونسل کے ریفرنس کو ٹیکسوں کی شرح کو ہم آہنگ کرنے کےلیے استعمال کیاجائے بالخصوص زرعی آمدن اور املاک پر آمدن کو ہم آہنگ کیاجائے۔ آئی ایم ایف نے صوبائی حکومتوں کو صوبائی ٹیکسوں کی وصولی اور صوبائی ٹیکس قوانین کے نفاذ میں اضافہ کرنے کی ترغیب دی ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ زرعی آمدنی ٹیکس (AIT) کو صوبائی حکومتوں کی طرف سے عام طور پر دیگر اقسام کی آمدنی کے مقابلے میں ترجیحی بنیاد پر ٹیکس کیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر، پنجاب زرعی آمدنی ٹیکس ایکٹ 1997 کے تحت، کسی شخص کی کل زرعی آمدنی پر پانچ فیصد سے 15 فیصد تک کا پروگریسو اسکیل پر انکم ٹیکس لگایا جاتا ہے (جب سالانہ آمدنی PRs 300,000 سے تجاوز کر جاتی ہے)۔ کل زرعی آمدنی میں شامل ہیں: (a) کاشت شدہ زمین پر زمین پر مبنی ٹیکس (کسی زرعی سال کے دوران بوئی گئی زمین کی بنیاد پر، قطع نظر اس کے کہ زمین کے سائز اور اس پر پیدا ہونے والی فصلوں کی تعداد)؛ اور (b) زرعی آمدنی، جس میں زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی زمین سے حاصل ہونے والی آمدنی یا کرایہ شامل ہے (جس میں زرعی عمل بھی شامل ہیں) اور ایسی زمین کے قریب ترین عمارتیں۔ صرف وہی لوگ جن کے پاس "کاشت شدہ" زمین ایک مخصوص ایکڑ کے اوپر ہے، انہیں اپنی کل زرعی آمدنی پر ریٹرن فائل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

اہم خبریں سے مزید