• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی سطح پر بڑھتی شرح اموات کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ ’’ہیپاٹائٹس‘‘ کو قرار دیا جاتاہے۔ ہیپاٹائٹس کو یرقان کہا جاتا ہے، جو انسان کےجگر کو سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے۔ دراصل جگر میں انفیکشن کے باعث ہونے والی سوزش اور ورم ہی ہیپاٹائٹس ہوتا ہے، جو کئی متعدی وائرس اور غیر متعدی ایجنٹوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ 

اس بیماری کی بنیادی وجہ خون میں کیمیائی مادہ لیلو روبین ((Bilirubin کی زیادتی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے صحت کے متعدد مسائل ہوتے ہیں، جن میں سے کچھ مہلک بھی ہو سکتے ہیں۔ میڈیکل سائنس جگر کو جسم کا سب سے اہم عضو تصور کرتی ہےکیونکہ یہ جسم کے سب سے اہم کام انجام دیتا ہے۔ اس کے متاثر ہونے سے جسم کے اہم افعال متاثر ہوجاتے ہیں۔

ہیپاٹائٹس وائرس کی پانچ اہم قسمیں ہیں، جنھیں اے، بی، سی، ڈی اور ای کہا جاتا ہے۔ ہیپاٹائٹس کی اقسام بی اورسی زیادہ خطرنا ک سمجھی جاتی ہیں جبکہ اے، ڈی اور ای زیادہ خطرناک نہیں اور ان سے متاثرہ شخص چند دنوں میں ٹھیک ہو جاتا ہے۔ ہیپاٹائٹس اے اور ای کو پیلا یرقان جبکہ بی اور سی کو کالا یرقان کہا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ سب جگر کی بیماری کا باعث بنتی ہیں، لیکن وہ اہم طریقوں سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں، جن میں منتقلی کے طریقے، بیماری کی شدت، جغرافیائی تقسیم اور روک تھام شامل ہیں۔ 

خاص طور پر، ہیپاٹائٹس بی اور سی کروڑوں لوگوں میں دائمی بیماری کا باعث بنتی ہیں اور ایک ساتھ مل کر لیور سروسس، جگر کے کینسر اور وائرل ہیپاٹائٹس سے ہونے والی اموات کی سب سے عام وجہ ہیں۔ ہیپاٹائٹس بی اور ہیپاٹائٹس سی دنیا بھر میں 80فیصد جگر کے کینسر کا سبب بنتے ہیں۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو نہ صرف کسی خاص محل وقوع یا مخصوص لوگوں کو اپنا شکار بناتی ہے بلکہ یہ عالمی طور پر ایک وبا کی صورت اختیار کررہی ہے۔

قابلِ تشویش بات یہ ہے کہ لاعلمی اور درست تشخیص کا عمل نہ ہونے کے باعث کئی مریضوں کو اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ ہیپاٹائٹس کا شکار ہیں۔ یہ صورتحال ہر سال ہزاروں متاثرہ افراد کی زندگی کو دردناک بنانے کے ساتھ ساتھ انھیں موت کے منہ میں دھکیلنے کا سبب بن جاتی ہے۔ صرف یہی نہیں، لاعلمی اور تشخیص کی عدم موجودگی میں یہ مرض انفیکشن کی صورت دیگر افراد میں بھی بآسانی منتقل ہوجاتا ہے۔

پاکستان میں ہیپاٹائٹس اے زیادہ عام مرض ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 1.5فیصد پاکستانی ہیپاٹائٹس بی جبکہ 4.5فیصد ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہیں۔ دنیا بھر میں 35کروڑ سے زائد افراد ہیپاٹائٹس بی یا سی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، اور زیادہ تر کے لیے جانچ اور علاج پہنچ سے باہر ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس بی اور سی سے تقریباً 11لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ تعداد ایچ آئی وی ایڈز، ملیریا اور ٹی بی کے باعث موت کے منہ میں جانے والے افراد کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔

وجوہات

ہیپاٹائٹس کی اصل وجہ ایک وائرل انفیکشن ہے مگر یہ مرض مختلف وجوہات کی بناء پر بھی انسانی جسم پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔ مثلاً خون کی منتقلی، تھیلیسیمیا اور ہیموفیلیا کا مرض، استعمال شدہ اور آلودہ انجیکشن یا سرجیکل آلات کا استعمال، متاثرہ سوئی سے کان چھیدنا، ادویات کے استعمال کا ری ایکشن، آلودہ ٹوتھ برش اور منشیات یا الکوحل وغیرہ کا استعمال۔ متاثرہ مریضوں میں اس مرض کی تشخیص ضروری ہے، جو کہ علامات اور بلڈ ٹیسٹ کے ذریعے ممکن ہے۔

علاج

لاعلمی اور درست تشخیص کا عمل نہ ہونے کے سبب کئی لوگوں کو علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہیں۔ صرف یہی نہیں، لاعلمی اور تشخیص کی عدم موجودگی میں یہ مرض انفیکشن کی صورت دیگر افراد میں بھی بآسانی منتقل ہوجاتا ہے۔ ہیپاٹائٹس کی کچھ اقسام ویکسینیشن کے ذریعے روکی جا سکتی ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 2030ء تک کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں 45لاکھ قبل از وقت اموات کو ویکسینیشن، تشخیصی ٹیسٹ، ادویات اور تعلیمی مہمات کے ذریعے روکا جا سکتا ہے۔ 

عالمی ادارۂ صحت کی عالمی ہیپاٹائٹس حکمت عملی، جس کی توثیق ادارے کے تمام رکن ممالک نے کی ہے، اس کا مقصد 2016ء اور 2030ء کے درمیان ہیپاٹائٹس کے نئے انفیکشن میں 90 فیصد اور اموات میں 65 فیصد کمی لانا ہے۔ ایسے میں  2030ء تک عالمی سطح پر اس بیماری کے خاتمے کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے جانچ اور علاج کی کم کوریج سب سے اہم خلا ہے، جسے دور کیا جانا چاہیے۔

بچاؤ

ہیپاٹائٹس کی مختلف اقسام کی وجوہات اور بچاؤ کے لیے تدابیر بھی مختلف ہوتی ہیں۔ ہیپاٹائٹس اے کوصاف پانی اور متوازن خوراک کی فراہمی، قوت مدافعت میں اضافے اور نکاسی کے بہتر نظام کے ذریعے روکا جاسکتا ہے۔ ہیپاٹائٹس بی سے بچاؤ کے لیے نومولود کو ہیپاٹائٹس بی سے بچاؤ کے ٹیکےاور 18ماہ کے دوران طبی معالج سےکورس مکمل کروانا ضروری ہے۔

ہیپاٹائٹس سی سے بچاؤ کے لیے جراثیم اور بیکٹیریا سے پاک ہمیشہ نئی سرنج استعمال کرنی چاہیے جبکہ کسی دوسرے شخص کا کنگھا اور ٹوتھ برش بھی استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ دندان ساز کو سرجیکل آلات اور حجام کو اپنے آلات استعمال میں خاص احتیاط برتنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ، دوسروں کے خون کو ہاتھ لگانے سے قبل دستانے پہننے چاہئیں۔

صحت سے مزید