• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ )‎

’’انڈین انتخابات: مودی سرکار تیسری بار“ کے عنوان سے قسط وار ایک سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ درویش کو چناؤ سے پہلے بھی اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں تھا کہ مودی پنڈت نہرو کا ریکارڈ برابر کرتے ہوئے تیسری بار بھارت کے پردھان منتری منتخب ہو جائیں گے الجھاؤ صرف اس ایشو پر تھا کہ بی جے پی یا اس کا الائنس این ڈی اے کتنی سیٹیں حاصل کر پائے گا۔ چناؤ سے پہلے فضا بہرحال اس نوعیت کی بنی ہوئی تھی کہ حکمران پارٹی یا الائنس دو تہائی اکثریت حاصل کر جائیں گے اس حوالے سے جو سروے سامنے آ رہے تھے وہ لایعنی نہ تھے لیکن اپوزیشن کی یہ تشویش کہ ایسی بڑی کامیابی کی صورت میں بی جے پی آئین کو بدل ڈالے گی، گراس روٹ لیول تک اثر انداز ہو گئی۔ اس طرح چار جون کو جو انتخابی نتائج آئے وہ بشمول این ڈی اے سب کیلئے حیرت انگیز ضرور تھے، تشویش ناک نہ تھے۔ بھارتی جنتا نے حکمران اتحاد کو جتوا کر مودی کی وزارتِ عظمیٰ تو پکی کر دی مگر آئین بدلنے کی شکتی ان سے لے لی۔اسے انڈین ڈیموکریسی کی خوبصورتی قرار دیتے ہوئے خوش آئند کہا جانا چاہیے تھا مگر انڈیا سے بڑھ کر یہاں پاکستان میں ہمارے لوگوں نے پروپیگنڈا کا طوفان کھڑے کر دیا کہ مودی ہار گیا اور یہ بھی کہ اب اگر اس کی حکومت بن بھی گئی تو وہ مہمان اداکار جیسی ہو گی۔ اس نوع کی سوچ رکھنے والے وہ لوگ تھے جو انڈین پالیٹکس کی اندرونی صورتحال سے آگہی نہیں رکھتے۔ ہمارے لوگ اِسے اپنے چھانگا مانگا یا جہانگیر ترین کی پی ٹی آئی والی ہارس ٹریڈنگ جیسا سمجھتے اور بیان کرتے رہے بلاشبہ سیاست میں پکے دوست ہوتے ہیں نہ دشمن اور دنیا بھر کی جمہوریتوں میں سیاسی جوڑ توڑ ایک فطری عمل ہے لیکن ہماری آمریت کی ماری پاکستانی سیاست اور انڈیا کی سیاست میں کچھ فرق تو بہرحال ملحوظ خاطر رہنا چاہیے۔ ‎درویش نے اس پر تفصیلی تجزیہ کرتے ہوئے اپنے اخبار جنگ کو ارسال کیا لیکن بیچ میں کچھ دوسرے ایشوز آگئے اس لیے وہ ہنوز شامل اشاعت نہیں ہو سکا بہرحال اب ملاحظہ ہو۔اس کے بعد جائزہ لیتے ہیں کہ حکومتی اتھارٹی کس طرح بدستور پرائم منسٹر مودی ہی کے ہاتھوں میں ہی رہے گی اور وہ آگے چل کر کیا کرنے جا رہے ہیں بالخصوص آتنک واد کے خلاف، ہمارے لوگوں کیلئے یہ زیادہ اہم ہو گا۔ ہمارے لوگوں کو بھارت سے جو بھی معاملات کرنے ہیں وہ کسی اور کے ساتھ نہیں مودی اور صرف مودی کے ساتھ ہی کرنا ہونگے۔ ان کے آرمی چیف کا تو ہمارے عام آدمی کو نام بھی نہیں معلوم، اوتھ سرمنی میں وہ پانچویں لائن میں بیٹھے ہوئے تھے شاہ رخ خان سے بھی پیچھے، کیا پاکستان میں یہ ممکن ہے؟ شیو سینا کی 9سیٹیں بی جے پی حکومت کیلئے ایک طرح سے ہم خیال اتحادیوں جیسی ہونگی، بہار میں نتیش کمار کی جنتا دل کے پاس 12سیٹیں ہیں جبکہ آندھراپردیش میں چندربابو نائیڈو کے تلگو دیشم کی 16نشستیں مودی سرکار کیلئے معاون ہونگی ،گو ان کے تقاضوں کا لحاظ مودی سرکار کو رکھنا ہو گا اس طرح کچھ آزاد اور چھوٹی پارٹیوں کے لوک سبھا نمائندے بھی اپوزیشن کی بجائے حکمران اتحاد کے ساتھ جانا پسند کریں گے، دوسری طرح انڈی الائنس کا یہ حال ہے کہ ممتا بنیرجی کی ترنمول کانگریس اپنی جیتی ہوئی 29سیٹوں کے ساتھ اپنی الگ حیثیت کی حامل ہے جو خود کو راہول گاندھی کے زیر اثر نہیں دیکھتی ہیں الیکشن رزلٹ کے فوری بعد ہونے والے ”انڈیا“ اجلاس میں وہ خود شریک نہیں ہوئیں جس کے کارن راہول کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ ہم حکومت میں نہیں جا رہے اپوزیشن میں بیٹھیں گے۔ ان حوالوں سے جو لوگ ابہام پیدا کررہے تھے وہ سب کلیئر ہو چکا ہے، نریندر مودی پنڈت جواہر لعل نہرو کا ریکارڈ برابر کرتے ہوئے 9 جون کو اپنی ہیٹرک کے ساتھ تیسری مرتبہ پرائم منسٹر انڈیا کا حلف اٹھا چکے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ انہوں نے اپنا سابقہ دس سالہ ترقیاتی ایجنڈا آئندہ بھی جاری و ساری رکھنا ہے اور اپنی سابقہ کوتاہیوں سے سیکھتے ہوئے بی جے پی کی پہلی پاپولیریٹی کو کس طرح بحال کرنا ہے۔ گراس روٹ لیول سے اٹھ کر آنے والے جہاندیدہ سیاست دان نریندرمودی، اٹل بہاری واجپائی کی طرح کولیشن کو چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کے متعلق جو شدید پروپیگنڈا کیاگیا ہے کہ جیسے وہ بے بس و مجبور ہوکر لولی لنگڑی حکومت بنانے جارہے ہوں جن لوگوں نے چناؤ کے فوری بعد این ڈی اے کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کو ملاحظہ کیا ہے وہ بہار کے رہنما نتیش کمار اور آندھراپردیش کے پاپولر لیڈر چندرابابو نائیڈو کے اظہارِ خیال اور باڈی لینگویج سے بہت کچھ سمجھ سکتے ہیں اور نریندرمودی کا حکومت سازی میں اعتماد بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ ثبوت کیا ہے کہ انہوں نے اپنے سابقہ ادوار کی پالیسیوں کے تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے تمام اہم یا کلیدی وزارتوں پر اپنے قابلِ اعتماد انہی ساتھیوں کو بٹھایا ہے جو پہلے سے ان کےساتھ چلے آرہےتھے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ، وزیر دفاع راجناتھ وزیر خارجہ جے شنکر اسی طرح فنانس منسٹر اور نیشنل سیکورٹی ایڈوائزرسمیت تمام بڑی وزارتیں جوں کی توں رکھی ہیں۔ 72بہتر رکنی کونسل آف منسٹرز میں61 وزارتیں بی جے پی کو سونپی گئی ہیں دیگر گیارہ این ڈے اے کے اتحادی ساتھیوں کو، تمام اتحادی مودی کے واری صدقے جارہے ہیں۔‎ بھارت اور بنگلہ دیش اگر آج ہمارے مقابلے میں کہیںزیادہ ترقی کررہے ہیں یا اپنے عوام کے مسائل اور دکھوں کو دور کرنے کیلئے ان کی حکومتیں بہتر کارکردگی دکھاتے ہوئے ٹھوس آوٹ پٹ دے رہی ہیں تو دیگر وجوہ کے ساتھ اس کی ایک اہم وجہ ہر دو ممالک کی حکومتوں کا تسلسل و استحکام ہے۔ جن ملکوں میں حکومتوں کو اپنے بچاؤ کے لالے پڑے ہوں اور یہ تک معلوم نہ ہو کہ کب چلتا کر دیا جائےگا وہاں بدحالی اور سیاسی عدم استحکام ایسے ہی ڈیرے ڈال لیتے ہیں جیسے ہمارے ملک میں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین