• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

باشعور اقوام میں تخلیق کار کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے، کیوں کہ وہ بے حد حساس، نبض شناس اور مستقبل بین ہوتا ہے۔ دنیائے اقوام کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ سیاسی انقلابات میں طاقت اور تلوار کا جتنا کردار رہا ہے، اتنا ہی قلم کا بھی۔ بعض حالات میں توقلم، تلوار کی نسبت بیحد موثر اور طاقتور رہا ہے۔ ایک ادیب یا شاعر کا قلم قوموں کی تقدیر ہی بدل دیتا ہے۔

اٹھارہویں صدی عیسوی میں جب برصغیر کے عوام نے خود کو انگریز کے تسلط سے چھٹکارا دلانا چاہا او ر تحریک آزادی شروع کی تو متحدہ ہندوستان کے دانشوروں ادبا اور شعرا نے ہر موڑ پر اس کا ساتھ دیا اور بھرپور انداز سے فکری اور عملی جدوجہد کی۔ یہ جدوجہد تقریر اور تحریر کےذریعے تب تک جاری رہی، جب تک لوگوں کو آزادی جیسی بے بہا نعمت نہ ملی۔ ادبا وشعرا کا یہ کردار ہماری قومی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔

1857سے 1947 تک آزادی کے حصول کے ضمن میں جتنی بھی تحاریک اُبھریں، ان میں1857کی جنگ آزادی، سرسید احمد خان کی تحریک تعلیم، تقسیم بنگال کی تحریک، ہجرت تحریک، خلافت تحریک، ریشمی رومال تحریک، سندھ کی بمبئی سے آزادی کی تحریک اور بہت ساری مقامی تحاریک آجاتی ہیں۔ ایک قلم کار نے ہر تحریک میں اپنے قلم کو متحرک رکھا۔ اکثر حالات میں تواس نےاپنے قلم کو صرف اور صرف قومی تحریک کیلئے وقف کردیا۔

1857سے 1847تک کے90سال کے عرصے میں برصغیر کے قلمکاروں نے یہاں کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کیلئے مسلم اُمہ کاشاندار ماضی بیان کرکے ان میں ہمت، جرات، بہادری اور ایمانی قوت کو اوربھی بڑھاوا دیا۔ اس دور میں جتنی بھی ادبی مجالس اور شعروسخن کی محافل منعقد ہوتی تھیں، ان کا موضوع صرف تحریک آزادی ہی ہوا کرتا تھا۔

ایک طرف سر سید احمد خان مسلمانوں میں تعلیمی بیداری پیدا کررہے تھے اور اینگلو اوریئینٹل کالج کی بنیاد رکھ کر مسلمانوں کو جدید علوم سے آراستہ کررہے تھے تو دوسری طرف شاعر مشرق علامہ محمد اقبال اپنے علم، قلم، فکر اور فلسفے کے ذریعے قوم کو بیداری کا درس دے رہے تھے۔

ایک طرف مولانا الطاف حسین حالی اپنی شاندار تصنیف’’ مسدس حالی‘‘ کے ذریعے مسلمان قوم کو اپنی کوتاہیاں اور کمزوریاں یاد دلاکر اس کو آزادی کے حصول کیلئے منظم ومتحد کررہے تھے تو دوسری طرف شعلہ بیاں مقرر مولانا محمد علی جوہر اپنی ولولہ انگیز تقاریر اور پر اثر تحاریر کے ذریعے مسلمانوں میں آزادی کی روح پھونک رہے تھے۔

اس ہی دور میں سندھ کے اندر تحریک آزادی کیلئے ادیبوں، شاعروں اور تخلیق کاروں کی ایک بڑی تعداد جدوجہد کررہی تھی۔ سندھی شعرا نے، سندھ کے عوام کو علامہ اقبال سے متعارف کرانے کےسلسلے میں ان کے کلام کا سندھی زبان میں منظوم ترجمہ کیا۔ اس حوالے سے شمس العلما مرزا قلیچ بیگ اور لطف اللہ بدوی کی خدمات بے حد اہمیت کی حامل ہیں۔

1915میں لاڑکانہ میں’’ بزم مشاعرہ ‘‘ کی بنیاد رکھی گئی، جس میں سندھ کے گوشے گوشے سے بڑےبڑے شعرا شریک ہوتے اور دھواں دھار اشعار پڑھتے، ان کا موضوع سخن وطن کی آزادی ہی ہوتا تھا۔ تحریک پاکستان کی قلمی جدوجہد میں’’ مولانا اللہ بخش ابوجھو‘‘ کانام قومی تاریخ میں سرفہرست ہے۔ 

سندھ میں ان کا قومی کردار مولانا الطاف حسین حالی سے ہرگز کم نہ تھا۔ آپ پہلے سندھی شاعر تھے، جنہوں نے اپنے گیتوں، ترانوں اور نغموں کے ذریعے سندھ کے عوام میں سیاسی بیداری اور قومی شعور اُجاگر کیا۔ مولانا کی شاہکار کتاب ’’ مسدس ابوجھو‘‘ تحریک آزادی کی ایک اہم شاعرانہ دستاویز مانی جاتی ہے۔

تحریک آزادی کے ایک اور شہسوار اہل قلم شمس الدین بلبل تھے، جنہوں نے ایک طرف تو اپنی مخصوص مزاح نگاری کے باعث دنیائے علم وادب میں بڑی شہرت حاصل کی تو دوسری طرف وطنیت سے بھرپور شاعری کرکے قومی آزادی اور غیرت میں بڑا نام کمایا۔ 

انہوں نے شاعری کے علاوہ اپنی نثری تحاریر میں متحدہ ہندوستان کی آزادی کیلئے زبردست آواز اٹھائی۔ اس سلسلے میں آپ کی کتاب ’’جام جم‘‘ ایک اعلیٰ درجے کی تصنیف ہے۔ مرحوم نے اپنی وفات سے چند لمحے پیشتر جواشعار کہے، وہ قیام پاکستان کیلئے ایک پیشن گوئی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ایک شعر ملاحظہ کریں،

ہندوؤں کا سامان جدا، مسلمانوں کا سامان جدا

مل کر رہنا ممکن نہیں، تم جدا اور ہم بھی جدا

تحریک آزادی کے ایک اور نامور قلمی مجاہد محمد ہاشم مخلص ٹکھڑائی، نے اپنی شعلہ انگیز شاعری کے ذریعے برطانوی سامراج کو ہر وقت للکارا، جس کے نتیجے میں انہیں قیدوبند کی صعوبتیں کاٹنی پڑیں۔ ان کو اسلام اوربرصغیر کے مسلمانوں سے بے مثال محبت تھی ۔یہ ہی وجہ تھی کہ انہوں نے ’’خلافت تحریک ‘‘ میں بھرپور حصہ لیا، اس تحریک کی حمایت میں1920میں ایک کتاب ’’ جذبات مخلص‘‘ کے عنوان سے تحریر کی۔

حکیم فتح محمد سوہانی کا شمار بھی تحریک آزادی کے صف اول کے شعرا میں ہوتا ہے۔ ان میں قوم کیلئے خود سپردگی کا جذبہ بے حد شدیدتھا۔ ان کی کاوشوں سے`1930میں کراچی میں’’ جمعیت علمائے ہند‘‘ کا ایک بڑا اجلاس ہواتھا، جس کی صدارت مولانا محمد علی جوہر نے کی تھی۔حکیم صاحب نے سندھی قوم میں قومی جذبہ اور شعور پیدا کرنے کیلئے ’’کمال اور زوال‘‘ نامی ایک کتاب لکھی تھی۔ 

مولانا الطاف حسین حالی سے ملاقات کے بعد حکیم صاحب ان کے افکار ونظریات سے بے حد متاثر ہوئے اور ایک کتاب ’’ داستان قوم‘‘ لکھی، جس میں آزادی کی قدرو اہمیت کا بھرپور احساس دلایا گیاتھا۔ مولانا حالی نے ان کی خدمات سے متاثر ہوکران کو ’’ سندھ کا سرسید‘‘ کا خطاب دیاتھا۔ حکیم صاحب کے قومی جذبے کی ایک جھلک اس شعر سے عیاں ہے۔

یہ کیا؟ غفلت عزقاب، اے ہماری قوم

یہ کیا؟ یہ چشم پُر ازآب، اے ہماری قوم

مخدوم غلام احمد نظامی اپنےدل میں قوم کا دردرکھنے والے ایک غیور شاعر اور ادیب تھے۔انہوں نے اپنی کتب میں آزادی کی نعمتوں کا بھرپورذکر کیا ہے اور مسلمانوں کو یہ احساس دلایا ہے کہ وہ اپنی آزادی کی جدوجہد کو مزید تیز کریں۔ مخدوم نظامی کے شعری مجموعے’’ ترانہ پاکستان‘‘ کو تحریک آزادی میں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ 

یہ کتاب 1945میں تحریر کی تھی۔ انہوں نے1931میں ’’ مسدس حالی‘‘ کا سندھی زبان میں ترجمہ بھی کیا تھا۔ ان پر علامہ اقبال کی شاعری اور فلسفے کا گہرا اثر تھا۔ لہذا انہوں نے نظریہ پاکستان ، مسلم لیگ کی حکمت عملی اور مسلم وحدت فکر کی مکمل تائید کرتے ہوئے قومی شاعری کی۔ مرحوم نظامی کو ’’ سندھ کا اقبال‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا ایک شعر ہے:

ہمت سےمل کر اس ملک کو آزاد کریں گے

اس گلشن برباد کو آباد کریں گے

1940میں ’’ ادیب سندھ‘‘ نامی ایک ماہنامہ جاری کیا گیا، جس نے پورے سندھ میں آزادی کی تحریک کو ایک طوفان کی شکل دے دی۔ اس رسالے کے پلیٹ فارم سے ہر ماہ طرحی مشاعروں کا بھی بھرپور انتظام کیا جاتا تھا اور شاعروں کو قومی طرحیں دی جاتی تھیں، مثلاً

… خاک وطن پرمیری یہ جان نثار ہے۔

…درد اپنے دیس کا پیدا کرو اے جوانو

…فدائے قوم ہوجااور جذبہ ایثار پیدا کر

…اک زمانہ تھا جب ناز تھا مجھے تلوار پر

…ہمارا بخت خوابیدہ، ایک دن بیدار تو ہوگا

1946میں نامور ادیب اور شاعر حاجی محمود خادم لاڑکانوی نے ’’جمعیت شعرائے سندھ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ اس ادبی تنظیم کی طرف سے سندھ کے مختلف شہروں میں شاندار ادبی محافل منعقد ہوتی تھیں۔ ان محافل میں تحریک آزادی اور مسلمانوں کی بیداری سے متعلق تحاریر پڑھی جاتی تھیں اور بھرپور مشاعرے بھی ہوا کرتے تھے، جن میں قومی جذبات کو اُبھارنے اور سیاسی شعور پیدا کرنے والی شاعری پیش کی جاتی تھی۔ حاجی محمود خادم لاڑکانوی کی ایک طویل نظم سے صرف دواشعار پیش خدمت ہیں۔

شمع محفل بن اورقوم کا تو ہمراز بن جا

قومی شمع پر پروانے کی طرح ایک جانباز بن جا

تحریک آزادی کی جدوجہد کے حوالے سے نامور شاعر قادر بخش بشیر کا قلم کبھی بھی خشک نہ ہوا۔ ان کی شاعری جذبات سے بھرپور ہے:

مجاہد مرد اپنے سر تلوار پر لے آؤ

لگاؤ پورے جہاں میں نعرہ تکبیر آزادی

معروف شاعر نیاز ہمایونی بھی کسی سے پیچھے نہ تھے:

جانبازو! جنگ آزادی کی تیاری کرو، بیدار ہوجاؤ

قوم کو جگاؤ، خود بھی غفلت چھوڑو، بیدار ہوجاؤ

قوم کے ہر فرد کو مضبوط کرو اتحاد و ایمان سے،

سامراج کا جنازہ نکالو ہمارے پیارے جہاں سے

وطن کے ہر دشمن کی جڑ اکھاڑو، بیدار ہوجاؤ

اہلیان سندھ کیلئے یہ تاریخی اعزاز کی بات ہے کہ انہوں نے تحریک پاکستان میں فیصلہ کُن کردار ادا کیا اور سندھ کی صوبائی اسمبلی نے1943میں قیام پاکستان کی قرارداد پاس کی۔ یہ قرار داد سندھ کے کہنہ مشق ادیب، دانشور، اہل قلم اور سیاستدان جناب جی ایم سید نے پیش کی تھی۔

1947میں جب پاکستان جیسی نعمت عطا ہوئی تو سندھ کے قادر الکلام شاعر نثار بزمی آگے بڑھے اور انہوں نے اپنے قلم کو وطن کیلئے آزاد شاعری کرنے کیلئے وقف کردیا، مثلاً:

اور جب آزادی چھین گئی تھی تو

سب کے چہرے کمہلا گئے تھے

دل اداس ہوگئے تھے

برصغیر کے سب مسلمان

صرف حکم کے پابند بن گئے تھے

بس، حاضر سائیں… حاضر سائیں!

کچھ بھی نہ تھا ان کے بس میں

کچھ بھی نہ تھا ان کے ہاتھ میں

ہائے ! ہمارے حال بے حال تھے

ظلم جب حد سے بڑھ گیا تو

مظلوموں کی غیرت جاگی

آزادی کا جذبہ جاگا

وہ اُٹھے خود کو پہچان کر

سرخ لہو کا سورج اُبھرا

ذرہ ذرہ زنجیر ٹوٹے، جبر کی ہتھکڑیاں ٹوٹیں

آزادی کے متوالوں میں، جذبوں کی جوت جل اٹھی

تڑپ تڑپ کر، ذلیل ہوکر،کالی رات مرہی گئی

آزادی کا سورج ابھرا، ہاں… ہاں یارو

آزادی کا سورج ابھرا

ایسا سورج

جس کا نام پاکستان ہے

اس طرح سندھ کے مسلمان شعرا وادبا نے تحریک آزادی اورقیام پاکستان کی جدوجہد میں جو شاندار کردار ادا کیا، وہ وطن عزیز کی قومی تاریخ کا ایک قابل فخر باب ہے۔ وطن سے محبت کا تحریری سفر اب بھی جاری ہے اور جب تک یہ پاکستان قائم ودائم ہے، تب تک یہ سفر رکنے والا نہیں۔