• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو جس ظلم بربریت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس کی مثال جدید تاریخ میں نہیں ملتی ۔ شہر کراچی سے امریکی دن دہاڑے اس خاتون کو اٹھا کر افغانستان لے گئے، اسے وہاں قائم شدہ امریکی اڈے میں قید کر نے کے بعد ظلم کا نشانہ بنایا گیا اور اب وہ امریکی جیل میں قید ہے۔ طالبان کی مدد کے الزام میں قید اس عورت کو نہ جانے امریکیوں نے کیوں اپنا دشمن سمجھا ہوا ہے اور اس پر ظلم کے ایسےپہاڑ توڑ رہے ہیں جن کی رودادسن کر دل دہل جا تا ہے۔ گزشتہ دنوں خبر آئی کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو جیل میں ایک گارڈ نے جنسی تشدد کا نشانہ بنا یا۔ یقین جانیے یہ خبر ٹی وی سکرین پر نشر ہونے کے بعد نہ صبح کا ناشتہ اور نہ دوپہر کا کھانا کھانے کو دل چاہا۔ ایک خاتون جسے امریکی قانون کے مطابق سزا سنا کر جیل میں قید کر دیا گیا ہے اور وہ اپنی قید کی مدت پوری کر رہی ہے۔ اس کو جیل میں مزید کیوں ٹارچر کیا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار لمبی تان کر سو رہے ہیںاور انہیں اس انسانیت سوز ظلم کا کوئی احساس نہیں ہے۔ ان کی طرف سے کوئی آواز بلند نہیں ہو رہی۔ خود امریکی عوام جو جانوروں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں اور انسانی حقوق کا دنیا بھر میں پرچار کرتے ہیں انہیں ایک نہتی خاتون پر ہونے والے ظلم کا احساس تک نہیں ہے اور ان کی طر ف سے کوئی آواز بلند نہیں ہو رہی ہے۔ اب جبکہ امریکہ، افغانستان کے حوالے سے اپنے تمام آپریشنز استعمال کر چکا ہےاور قطر معاہدے کے تحت افغانستان میں طالبان کی حکومت بحال کر دی گئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کہ افغا ن قید یوں کو ٹارچر کر نے کے لیے گوانتانامو بے قید خانہ یا عقوبت خانہ بھی ختم کر دیا گیا ہے اور تمام قیدی واپس اپنے ممالک میں واپس آ چکے ہیں تو پھر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو قید میں رکھنے کا کیا جواز باقی ہے۔ اس سے ملاقات کی اجازت بھی بہت سے مراحل طے کرنے کے بعد دی جاتی ہے اور اس کاکیس کسی عدالت میں قابل سماعت بھی نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کے سابق سینٹر مشتاق احمد خان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حق میں مسلسل آواز بلند کرتے رہتے ہیں اور چند ماہ قبل وہ اپنی  کوششوں سے امریکہ جا کر ا س سے ملاقات بھی کر کے آئے ہیں مگر عافیہ صدیقی کے کرب میں کمی واقع نہ ہو سکی ہے۔ پاکستان میں شروع شروع میں سیاسی جماعتوں اور میڈیا نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حق میں آواز بلند کی خاص طور پر جماعت اسلامی کے سابق امیر سراج الحق نے مختلف شہروں میں ہونے والے مظاہروں سے خطاب کرتے ہوئے حکومت وقت سے پاکستان کی اس بیٹی کی رہائی کے لیے کوشش تیز کرنے کا مطالبہ کیا۔ ممتاز صحافی حامد میر نے بھی اپنے ٹی وی پروگرامز میں متعدد مرتبہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حق میں آواز بلند کی۔ مگر ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوئی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہائی نہ مل سکی اب تو طویل عرصہ سے اس کے حق میں کوئی آواز بلند نہیں ہو رہی ہے۔ اور ایک مسلم بیٹی کسی محمد بن قاسم کی آمد کی منتظر ہے۔ جس وقت طالبان دوحہ میں امریکیوں کے ساتھ امن مذاکرات کر رہے تھے اس وقت ان کو دیگر اسیران کی رہائی کے ساتھ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ بھی اپنے مطالبات کی لسٹ میں شامل کرنا چاہیے تھا۔ پاکستان چائنہ اور عرب ممالک ان مذاکرات میں فریقین کی امداد کر رہے تھے۔ لہٰذا اگر اس وقت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کو شامل مذاکرات کر لیا جاتا تو شائد اس مظلوم عورت کو رہائی نصیب ہو جاتی۔ اس وقت ضرورت اس امرکی ہےکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کوایک قیدی کے طور پر تمام حقوق دیئے جانے چاہئیں جن کا جنیوا کنونشن میں تفصیل سے ذکر ہے اور جس پر تمام اقوام عالم کے نمائندوں نے دستخط کر رکھے ہیں۔ اگر جنگی قیدیوں کے انسانی حقوق ہیں اور انہیں دشمن ملک ٹارچر نہیں کر سکتے تو پھر اس خاتون کو دوران قید کیوں ٹارچر کیا جا رہا ہے۔ کیوں بار بار اس کی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔ کیوں اس پر انسانی حقوق اور حقوق نسواں کی تنظیمیں خاموش ہیں۔ پاکستانی حکومت کو اپنے سفارتی چینلز کو متحرک کرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس کی اوپن ٹرائل یا سزا میں تخفیف کی کوشش کرنی چاہیے۔ امریکی حکومت اگر ریمنڈڈیوس جیسے قاتل کو اپنے سفارتی ذرائع سے پاکستانی عدالتوں سے رہائی دلوا کر بحفاظت نکال کر لے جا سکتی ہے تو پاکستانی حکومت کو بھی چاہیے کہ کراچی سے دن دہاڑے امریکی ایجنسیوں کے ہاتھوں اغوا ہونے والی پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے اپنا تمام اثر و رسوخ استعمال کرے اور اس کی رہائی کا انتظام کرے۔ اس کے لیے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ کیونکہ مشترکہ فورم کے طور پر او آئی سی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایک مسلم بیٹی کی کافروں کی قید سے رہائی کے لئے اپنا کلیدی کردار ادا کرے۔

تازہ ترین