ان دِنوں کراچی سمیت صوبہ سندھ کے مختلف علاقے شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں۔ لوگ سخت عذاب کا شکار ہیں، لیکن ان حالات میں بھی شہر قائد میں کے الیکٹرک کی جانب سےطویل وقفے کی اعلانیہ اور غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔
بعض علاقوں میں 12سے14گھنٹے کی بجلی کی لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ ڈیفنس، گلشن اقبال، گلبرگ، ملیر، ماڑی پور، میمن گوٹھ، شمالی کراچی،اورنگی ٹاؤن اور ناظم آباد میں بجلی کی طویل بندش کا سلسلہ جاری ہے۔
اس کے علاوہ ایف بی ایریا، گڈاپ، گارڈن، گذری، گلستان جوہر، گلشن معمار، بلدیہ، بلوچ کالونی، سوک سینٹر، ریلوے کالونی، جیکب لین، جیل روڈ، کورنگی، لانڈھی، لیاقت آباد اور لیاری میں 10گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔
احتجاج، اموات، تحقیقات
شہر کا درجہ حرارت جوں جوں بڑھ رہا ہے لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج اور سرد خانوں میں یومیہ لائی جانے والی میّتوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔چوبیس جون کو یہ خبر آئی کہ کراچی میں ایدھی فاونڈیشن کے سرد خانوں میں لائی گئی میتوں کی تعداد میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔
سربراہ ایدھی فاؤنڈیشن، فیصل ایدھی نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 3 روز میں 300 افراد کی میتیں ایدھی فاونڈیشن کے 3 سرد خانوں میں لائی گئیں۔ فیصل ایدھی کے مطابق 5 روز کے دوران 423 افراد کی میتیں غسل اور کفن کے لیےلائی گئیں۔ان کے مطابق عام دنوں کےمقابلے میں حالیہ دنوں میں میتوں کی تعداد دگنی ہے۔ زیادہ تر میتوں کے ساتھ ورثا موجود تھے اور نامعلوم میتوں کی تعداد کم ہے۔
جب اس بارے میں ذرایع ابلاغ میں شور اٹھا تو سندھ کے وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار نے کہا کہ کراچی میں گزشتہ دنوں میں متعدد افراد کی اچانک ہلاکتوں کی تحقیقات میں بجلی کی لوڈشیڈنگ وجہ بنی تو کے الیکٹرک کے منتظمین اور ذمے داران پر قتل کے مقدمات درج کیے جائیں گے۔ان کا کہنا تھاکہ ایسے واقعات کی انکوائری کی جارہی ہےکہ آخرکار اموات کی کیا وجوہات ہیں؟
دوسری جانب کراچی میں حالیہ دنوں میں لوڈشیڈنگ سے مبینہ ہلاکتوں کے معاملے پر نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے کے الیکڑک کے خلاف تحقیقات شروع کردی ہیں۔ نیپرا میں کے الیکٹرک کے 7سالہ ملٹی ایئر ٹیرف پر سماعت کے دوران نیپرا کی جانب سے کہا گیا کہ حالیہ لوڈشیڈنگ کے دوران ہونے والی اموات پر تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
دوران سماعت کراچی کے شہری گھنٹوں طویل لوڈ شیڈنگ پر پھٹ پڑے۔صارفین نے بتایا کہ مختلف علاقوں میں گھنٹوں لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے، جن علاقوں میں سو فیصد ریکوری ہے وہاں بھی لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے۔
ہر برس کا مسئلہ
موجودہ دور میں بجلی کے بغیر زندگی کا تصوّر مکمل نہیں ہوتا۔ شہروں میں رہنے والوں کو قدم قدم پر بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ گرمیوں میں بجلی کی طلب میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتاہے۔ لیکن گرمیوں ہی میں ملک میں بجلی کی فراہمی میں سب سے زیادہ تعطّل دیکھنے میں آتا ہے۔ ان دنوں کراچی سمیت ملک کے بہت سے حصّوں میں شدید گرمی پڑ رہی ہے اور دوسری طرف لوگ بجلی کی فراہمی میں بار بار تعطّل کے باعث بِلبلا اٹھے ہیں۔ پاکستانیوں کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔
ہر برس گرمی کے موسم میں ایسا ہوتا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے بارے میں کی جانے والی باتوں کی بازگشت گلی محلّوں سے لے کر پارلیمان کے ایوانوں تک سنائی دیتی ہے۔ کراچی میں یہ مسئلہ زیادہ گمبھیر ہے۔
کراچی الیکٹرک کا کہنا ہے کہ بجلی کی فراہمی میں ہر طرح کا تعطّل لوڈ شیڈنگ نہیں کہلاتا۔ اس کے بجائے پاور جنریشن اور سپلائی کے نظام میں کوئی بھی ایسا تیکنیکی سبب، جس سے بجلی صارفین تک نہ پہنچ سکے، لوڈ شیڈنگ کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن اگر کسی وجہ سے شہر کے کسی حصّے میں بجلی کی فراہمی میں تعطّل واقع ہو جائے تو لوگ اسے لوڈ شیڈنگ کا نام دے دیتے ہیں۔ کے ای کا کہناہے کہ دراصل طلب اور رسد کا فرق لوڈ شیڈنگ کہلاتا ہے اور لوڈ شیڈنگ خود ادارے کے لیے بھی ناپسندیدہ عمل ہے۔
کے ای لوڈشیڈنگ کی خواہ کوئی بھی تعریف پیش کرے، یہ حقیقت ہے کہ شہر کے زیادہ تر علاقوں کے باسی تواتر کے ساتھ بجلی کی فراہمی میں تعطّل کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ جب وہ ہر ماہ بجلی کے بل ادا کرتے ہیں تو کے ای ان پر یہ ظلم کیوں کرتا ہے؟ یہ ایک بنیادی سوال ہے، جس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اس صورتِ حال کی ذمّے داری حکومتوں اور کے ای کےاربابِ اختیار پر عائد ہوتی ہے۔
شہری منصوبہ بندی کے ماہرین کے مطابق کراچی کی آبادی میں بہت تیزی سے اضافہ ہواہے، لیکن اس کے تناسب سے یوٹیلٹی سروسز کے نظام میں توسیع نہیں کی گئی۔ کراچی میں بجلی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جو نظام وضع کیا گیا ہے، وہ عجیب و غریب نوعیت کا ہے اور اسے بھان متی کا کنبہ کہا جا سکتا ہے۔ اس کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ ٹھوس منصوبہ بندی کرنے کے بجائے عارضی فیصلے کیے گئے اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کرنے کے بجائے وقتی ضروریات پوری کرنے پر توجّہ مرکوز رکھی گئی۔
بجلی کی ترسیل وتقسیم کے نظام کےماہرین کا کہنا ہے کہ کے ای کا نظام بہتر بنانے کے لیے بہتر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے نظام کے نقصانات ختم ہونے چاہییں۔ ادارہ جو کنکشن دیتاہے، اس کا معیار اچھا نہیں ہوتا اور وہ لوز ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے اسپارک ہوتے رہتے ہیں، وولٹیج میں اتار چڑھائو آتا ہے اور بجلی کا نقصان ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کے ای کو اپنی ضرورت کے مطابق خود بجلی بنانی چاہیے اور جن اداروں سے وہ بجلی خریدے، ان سے بہتر معاہدے کیے جائیں۔ بجلی کی چوری اور ٹی اینڈ ڈی لاس کا بوجھ عوام پر نہ ڈالا جائے۔چوری اور نقصانات ختم کرنے کے لیے فول پروف نظام بنایا جائے۔
ترسیل اور تقسیم کے لیے اعلیٰ معیار کے تانبے کے تار استعمال کیے جائیں۔ گھروں اور صنعتوں کو بجلی کی فراہمی کے لیے زیرِ زمین کیبل بچھائے جائیں۔ اس مقصد کے لیے صارفین سے قسطوں میں پیسے لیے جا سکتے ہیں۔ ان کے مطابق ان اقدامات سے صورتِ حال میں بہت بہتری آ جائے گی۔
کراچی کے عوام بلاشبہ بجلی کی فراہمی میں تعطّل کی وجہ سے پریشان ہیں۔ لیکن اس میں کچھ قصور ان کا بھی ہے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں آج بھی ایک ہزاروں کنڈا کنکشن موجودہیں۔ بعض گھروں اور صنعتوں میں بجلی کی چوری کا عمل جاری ہے۔ عوام کو معاشرے کے ذمّے ادر افراد کی طرح ایسے لوگوں کی نشان دہی کرنی چاہیے۔
دوسری جانب اربابِ اختیار کو مستقبل کی ضروریات کو مدِّنظر رکھ کر منصوبہ بندی کرنی چاہیے اور ایسا نظام وضع کرنا چاہیے کہ شہریوں کو ہر موسم میں بجلی کی بلاتعطّل فراہمی ممکن ہو سکے۔
عوام اور اشرافیہ
پاکستان کے عوام بجلی، گیس اورپیٹرول کے ہوش ربا نرخوں اور کمر توڑ منہگائی کے خلاف اِن دِنوں سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ وہ سڑکوں اور سماجی رابطوں کے الیکٹرانی پلیٹ فارمز پر کُھل کر دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ شدت سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ عوام کے محاصل پر عیش کرنےوالی اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقے کو سرکاری خزانے سے دی گئیں مراعات واپس لی جائیں اور عوام پر سے منہگائی اور محاصل کا بوجھ کم کیا جائے۔
پاکستان کے سیاسی اور سماجی نظام پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے، بلکہ اصل معاملہ بہت گہرا ہے اور اس کی جڑیں ہمارے پورے سماجی، سیاسی اور اقتصادی نظام کے گرد مضبوطی سےجمی ہوئی ہیں۔
جو لوگ اس پورے گورکھ دھندے سے واقف ہیں، ان کے نزدیک یہ معاملہ بہت گمبھیر صورت اختیا رکرچکا ہے اور اس وقت پاکستان میں جتنے بھی سیاست داں ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس نے اشرافیہ سے فیض نہ اٹھایا ہو، خواہ وہ پی پی پی یا نون لیگ سے تعلق رکھتے ہوں یا پی ٹی آئی سے۔ ایسے میں کون اس پر ہاتھ ڈال سکتا ہے۔ ریاض مجیدنے ایسی ہی صورت حال کی جانب اس شعر کے ذریعے اشارہ کیا تھا:
بہت بے زار ہیں اشرافیہ کی رہبری سے
کوئی انسان کوئی خاک زادہ چاہتے ہیں
’’شرف‘‘والے، مگر کون؟
اشرافیہ کی اصطلاح سے مرادوہ اقلیتی گروہ ہےجو مراعات حاصل کرتا ہے یا معاشرے کے بالائی طبقے پر قابض ہے۔ عام طور پر ، اشرافیہ کا تعلق حکم راں طبقے یا ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو کسی خاص علاقے میں اپنی بالادستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بعض اوقات مختلف اشرافیہ کے مابین اپنے شعبے اور اثر و رسوخ کے مطابق تفریق پیدا کی جاتی ہے۔
اقتصادی اشرافیہ ایک ملک یا خِطّے کا ایک کیس پیش کرنے کے لیے، امیر خاندانوں سے بنا ہوتا ہے۔ سیاسی اشرافیہ گروہوں اور اہم راہ نماؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور ثقافتی اشرافیہ آرٹ کے ذریعے کسی ثقافت پر اثر اندازگروہ ہوتا ہے جس کے اراکین لوگوں کے درمیان ہوتے ہیں اور دانش ورانہ کام وغیرہ کرتے ہیں۔
اشرافیہ کی ایک تعریف میکس ویبر نے کی ہے جو کافی مقبول ہے، جس کی رُو سے وہ سب لوگ، جن کا سماجی ، سیاسی اور معاشی رتبہ (اس نے لفظ position استعمال کیا ہے) عام شہریوں سے بڑھ کرہے وہ سب اشرافیہ میں آتے ہیں۔ امراء، سیاست داں، بیورو کریٹ اور یہاں تک کہ ویبر فوجی افسران ، دانش وروں اور مذہبی شخصیات (جیسے مولانا حضرات اور پادری وغیرہ) کو بھی اشرافیہ میں شامل کرتا ہے۔
اشرافیہ کی دوسری تعریف مارکس نے کی ہے جو اسے سماجی سیاسی اور معاشی رتبےکے بجائے سرمایہ (یعنی دولت) سے متعین کرتا ہے ۔ اس مکتبہ فکر کے مطابق سماجی سیاسی اور معاشی رتبہ دراصل دولت کا مظہر ہے یا اہلِ دولت کی عطا ہے۔ یوں اشرافیہ سے مراد محض دولت مند طبقہ ہے یا ان کے منظور نظر افراد اس میں شامل ہیں۔
اس تعریف کو جدید سوشل سائنسز میں نامکمل سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ یہ تمام سیاسی، معاشی اور سماجی مظاہر کی مکمل تشریح سے قاصر ہے اور اس میں تنوّع نہیں ہے۔ چناں چہ بعض افرادنےویبر اور مارکس کی تعریفوں کو یک جا کر کے اشرافیہ کی تعریف متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس تعریف کے مطابق اشرافیہ میں وہ لوگ شامل ہیں جن کے پاس وسائل (یعنی دولت، سرمایہ) موجود ہیں یا وہ سماجی (جیسے کہ مذہبی عہدہ، دانش ور) اور سیاسی (جیسے کہ فوجی افسران، بیورو کریٹس) رتبے کے حامل ہیں۔
یوں پاکستان اور اس کے عوام کی موجودہ کس مپرسی اور ابتر حالت کے ذمے دار پاکستان میں اشرافیہ کے وہ تمام گروہ ہیں جو اس کی موجودہ حالت پر نہ صرف خاموش ہیں بلکہ ہنوز اپنے مفادات حاصل کر رہے ہیں۔