گزشتہ سے پیوستہ)
گورنمنٹ اسلامیہ کالج برائے خواتین کوپر روڈ اور اسلامیہ کالج ریلوے روڈ فار بوائز دونوں ہی تعلیمی ادارے بڑے تاریخی ہیں اور دونوں تعلیمی اداروں کا تحریک پاکستان، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ، مادر ملت فاطمہ جناحؒ، بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان اور تحریک پاکستان کے دیگر اکابر اور رہنمائوں سے بڑا گہرا تعلق رہاہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومتی حلقوں کی طرف سے آج کی نوجوان نسل اور ہمارے بے شمار سیاسی رہنما تک بھی اس بات سے بالکل بے خبر ہیں۔ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ فائر بوائز کا معیار تو ہم نے خود ہی گرا دیا ۔ آج بھی یہ سوچ ہے اور جب ہم گورنمنٹ کالج لاہور (موجودہ جی سی یو) میں زیر تعلیم تھے تو تب بھی کہا جاتا تھا کہ اگر کسی کو فرسٹ ایئر، تھرڈ ایئر میں کہیں داخلہ نہ ملے تو اس کو اسلامیہ کالج ریلوے روڈ فار بوائز میں داخلہ مل جاتا تھا۔ یعنی میٹرک میں آخری نمبر حاصل کرنے والے اور حتیٰ کہ کمپارٹ والے کیسز کو بھی سپورٹس، تقریر یا کسی نہ کسی کھاتے میں داخل کر لیا جا تا تھا۔ البتہ گورنمنٹ اسلامیہ کالج برائے خواتین کوپر روڈ کی موجودہ ہر دلعزیز پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر فوزیہ ناز نے اس کالج کے تعلیمی معیار کو ماضی کے مقابلے میں کئی گنا بہتر اور اچھا کرلیا ہے۔ آج گورنمنٹ اسلامیہ کالج برائے خواتین کوپر روڈ کا شمار لاہور کے بہترین تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔ یہ ایک تاریخی کالج ہے جہاں پر قائد اعظمؒ اور محترمہ فاطمہ جناح خود تشریف لائے، اس تعلیمی ادارے کا معیار ہر صورت بلند ہونا چاہیے اور معیار تعلیم بلند ہے بھی۔حکومت کو چاہیے کہ گورنمنٹ اسلامیہ کالج برائے خواتین کوپر روڈ کو بھی گرانٹ اور دیگر سہولیات زیادہ فراہم کرے۔ ایک تیسرا اسلامیہ کالج سول لائنز (جس کا قدیم نام ڈی اے وی کالج تھا) اس کے بھی موجودہ پرنسپل ڈاکٹر اختر سندھو نے اس کے معیار کو بھی ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر کرلیا ہے۔ اس تاریخی کالج میں تین سمادھیاں بھی ہیں اور یہیں پر قیام پاکستان سے قبل ایک انگریز پولیس آفیسر کو گولی مار دی گئی تھی۔ اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔اسلامیہ کالج سول لائنز کا فن تعمیر ایک مندر جیسا لگتا ہے ،ایک اس کی قدیم عمارت، دوسرے یہ لاہور کا واحد کالج ہے جہاں پر تین سکھ مہارانیوں کی سمادھیاں ہیں ۔ پہلی سمادھی مہاراجہ رنجیت سنگھ کی دوسری بیوی اور مہاراجہ کھڑک سنگھ کی ماں راج کور کی ہے۔ راج کور نے بعد میں اپنا نام رانی کوئین کرلیا تھا کیونکہ رنجیت سنگھ کی ماں کا نام بھی راج کور تھا۔ یہ سب سے بڑی سمادھی ہے۔ اگر سکھ حکمران مغل عمارات کا حلیہ نہ بگاڑتے اور یہاں سے قیمتی پتھر نہ چراتے تو یقین کریں کہ لاہور میں مغل آرٹ کے ایسے ایسے نادر نمونے ہوتے جنہیں دیکھ کر دنیا دنگ رہ جاتی ۔ سکھوں نے لاہور کی تاریخ اور قدیم عمارات کے ساتھ انتہائی برا سلوک کیا تھا۔ دوسری سمادھی چندر کور کی ہے جو کہ کھڑک سنگھ کی اہلیہ تھی اور تیسری سمادھی نونہال سنگھ کی اہلیہ کی ہے۔ آج ان سمادھیوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے یہاں پر ایک تہہ خانہ بھی ہے اس کی حالت بھی ابتر ہے ان پرپھرکبھی بات کریں گے۔ لاہور کے کچھ تعلیمی اداروں میں مندر، سمادھیاں، مزارات ،گوردوارے اور انگریزوں کے کتبے بھی ہیں۔بات ہورہی تھی اسلامیہ کالج کوپرروڈ برائے خواتین کی تو جناب عرض یہ ہے کہ یہ کالج جب 1939ء میں کوپر روڈ پر قائم کیا گیا تھا تو اس وقت یہ علاقہ بڑا کھلا اور وسیع کالج تھا، آج یہ لاہور کا سب سے رش والا علاقہ بن گیا ہے اب یہ علاقہ ہارڈ ویئر، شیشہ، پرنٹنگ پریس، سنیٹری اور دیگر سامان کی بہت بڑی مارکیٹ بن چکا ہے۔ انجمن حمایت اسلام نے یہ کالج جو کہ پہلے انٹرمیڈیٹ تھا اس علاقے میں اس وجہ سے بنایا تھا کہ طالبات پرسکون طریقے سے پڑھ سکیں۔ یہ اقامتی درس گاہ ہے جہاں ہوسٹل میں آج بھی سو کے قریب طالبات رہائش پذیر ہیں۔ اس کالج کے بالکل سامنے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ کا آفس ہے اس کی بڑی دلچسپ تاریخ ہے جو آپ کو آئندہ کالم میں بتائیں گے۔اس کو کبھی انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات و ڈسپنسریزکہا جاتا تھا پھر کبھی اس کو آئی جی ڈسپنسریز اور پھر آئی جی ہاسپٹلز پنجاب کہا گیا۔ اس کالج میں پانچ ہزار سے زائد طالبات زیر تعلیم ہیں۔ اسی کالج کی طالبہ فاطمہ صغریٰ نے دفتر لارڈ صاحب سے یونین جیک اتار کر پاکستان کا پرچم لگایا تھا اور یہ طالبہ بڑی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دفتر لارڈ صاحب کی عمارت پر چڑھ گئی تھی ۔ البتہ کالج میں اس طالبہ کا ذکر تو بہت کیا جاتا ہے مگر عوام اور آج کی نوجوان نسل کو ان کے بارے میں کچھ پتہ نہیں۔گورنمنٹ اسلامیہ کالج کی موجودہ پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر فوزیہ ناز خود بھی قائد اعظمؒ، محترمہ فاطمہ جناح اور اس طالبہ فاطمہ صغریٰ کا اکثر ذکر کرتی ہیں بلکہ ہر سال فرسٹ ایئر کی طالبات سے خوش آمدید خطاب میں ان کا بھرپور ذکر کرتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پنجاب اسمبلی کی عمارت جو اس تاریخی کالج سے صرف پیدل 5منٹ کی دوری پر ہے وہاں پر بھی اس حوالے سے کبھی کبھار بات ہونی چاہیے۔ خیر چلتے ہیں منٹگمری روڈ، ایبٹ روڈ اور میکلوڈ روڈ کی طرف ، جس کا تذکرہ ہم کر رہے تھے کبھی ایبٹ روڈ اور میکلوڈ روڈ پر سینما گھروں کی بھر مار تھی فلم انڈسٹری کے ختم ہونے کے ساتھ ساتھ لاہور کے وہ سینما گھر جو بڑے تاریخی اور قدیم تھے آہستہ آہستہ ختم ہوگئے۔ خیر اس دلچسپ موضوع پر پھر بات کریں گے۔ ہم ذکر کررہے تھے کہ منٹگمری روڈ پر ان دو قدیم خوبصورت کوٹھیوں کا جو بالکل ایک جیسی تعمیر کی گئیں اور ان کے درمیان بہت بڑا لان تھا جس پر پتہ نہیں پی ڈبلیو ڈی/ سی اینڈ ڈبلیو کس محکمے نے نرسوں کا ہوسٹل بنا ڈالا ہے۔ ارے اللہ کے بندو! اگر تم لوگوں نے ان دونوں خوبصورت کوٹھیوں کے درمیان ہوسٹل بنانا ہی تھا تو پھر اس کا فن تعمیر ان دونوں کوٹھیوں کے اصل فن تعمیر کو مدنظر رکھ کر ہی بناتے۔ اول ان دونوں کوٹھیوں کے پچھلی طرف اچھی خاصی جگہ تھی جہاں پر نرسوں کا ہوسٹل بنایا جاسکتا تھا۔ اس ہوسٹل کی وجہ سے دونوں کوٹھیوں کا تعمیراتی حسن انتہائی متاثر ہوا ہے۔ (جاری ہے)