اس دور میں زندگی کے ہر میدان میں مسابقت کا رجحان عروج پر پہنچ چکا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بچوں کو بھی مقابلے کے اس ماحول میں پھینک دیا گیا ہے۔ اپنے بچوں کے لیے اچھی تعلیم کا حصول والدین کے لیے انھیں مقابلے کی دوڑ میں شامل کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
ہر چندکہ، اپنے بچوں کی کامیابی اور ان کے مستقبل کی فکر والدین کے لیے بظاہر ایک اچھی بات ہے، تاہم یہ بات بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ بچوںکو انسان رہنے دیا جائے کہ کہیں مقابلے کی دوڑ میں والدین انھیں روبوٹ نہ بنا دیں۔ دوسری بات یہ ہےکہ مقابلے کی اس دوڑ میں بچوں کو شامل کرکے، ان سے ان کا بچپن نہیں چھیننا چاہیے، یہ وہ دور ہوتا ہے جس دوران کھیل کھیل میں بچے سیکھتے اور دنیا کو دریافت کرتے ہیں۔
انگریزی کو دنیا کی سب سے طاقتور زبان کا درجہ حاصل ہے، جس سے صرف پاکستان میں بولی جانے والی زبانیں ہی نہیں، بلکہ دنیا کے تقریباً تمام خطوں اور ملکوں میں بولی جانے والی زبانیں بھی اثرانداز ہورہی ہیں۔ جس طرح، پاکستان کے اکثر نجی اسکولوں میں بچپن سے ہی بچوں کو مادری زبان کےساتھ انگریزی زبان سیکھائی جاتی ہے، اس صورتِ حال کا سامنا فرانسیسی، جرمن، ہسپانوی اور دیگر زبانیں بولنے والے بچوں کو بھی ہے۔
فلوریڈا ایٹلانٹک یونیورسٹی کی ایک تحقیق اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ تحقیق کا مقصد یہ جاننا تھا کہ پیدائش یا پیدائش کے کچھ عرصے بعد، بچوں کو بہ یک وقت جب دو زبانیں سیکھائی جاتی ہیں، تو اس کا ان بچوں پر کیا اثر پڑتا ہے۔ رپورٹ کے نتائج، ان والدین اور ماہرین کی تشویش کو یقیناً کم کرنے کا باعث بنیں گے، جو اسے بچوں پر اضافی بوجھ اور بچوں کے ساتھ نا انصافی تصور کرتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر بچہ، پیدائش کے وقت سے ہی کوئی سی بھی دو زبانیں اپنی اپنی رفتار کے ساتھ سیکھتا ہے اور ایک زبان کا سیکھنا، اس کی دوسری زبان سیکھنے کی صلاحیتوں پر اثرانداز نہیں ہوتا۔ اس بات کا دارومدار بچوں کے والدین یا سرپرست پر ہے کہ وہ اپنے بچے یا بچوں کو کس طرح کا ماحول فراہم کرتے ہیں۔ اگر بچوں کو سیکھائی جانے والی دونوں زبانیں مؤثر اور معیاری انداز میں متعارف کرائی جائیں تو وہ دونوں زبانیں بآسانی سیکھ، سمجھ اور بول سکتا ہے۔
تاہم، رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ، انگریزی زبان اپنی زیادہ اثر پذیری کے باعث، دوسری زبان کو ماند کرسکتی ہے۔اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ، ایک بچہ جب گھر سے باہرنکلتا ہے تو اسکول، شاپنگ مال، بازار اور فیملی تقریبات وغیرہ میں اسے اپنی مادری زبان کے بجائے انگریزی زبان زیادہ سُنائی دیتی ہے۔
اس وجہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک بچہ اپنی مادری زبان میں ہی بولنے اور سمجھنے میں زیادہ مہارت حاصل کرے، دراصل اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ اسے کون سے زبان زیادہ بہتر معیار میں سُننے اور سمجھنے کو ملتی ہے۔
’ڈیویلپمنٹل سائنس جرنل‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں ہسپانوی اور انگریزی زبانیں بولنے والے بچوں کو تحقیق کا مرکز بنایا گیا ہے۔ تحقیق سے اخذ ہونے والے اعدادوشمار کی بنیاد پر بتایا گیا ہے کہ، بچے جیسے جیسے انگریزی میں بہتر مہارت حاصل کرتے جاتے ہیں، ان کی ہسپانوی زبان سیکھنے میں دلچسپی بتدریج کم ہوتی جاتی ہے۔
اس لیے، بچوں کے ساتھ بولی جانے والی کسی بھی زبان کے حجم کے مقابلے میں اس کا معیار زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ ’’بچوں کے الفاظ کے ذخیرے اور ان کی گرامر کی صلاحیتوں میں بڑا گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔ یہ بات دو زبانیں بولنے والے ہر بچے کے لیے کہی جاسکتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ، ایک زبان میں الفاظ کے ذخیرے اور گرامر کی صلاحیتوں کا دوسری زبان میں الفاظ کے ذخیرے اور گرامر کی صلاحیتوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ دونوں زبانیں ایک دوسرے کے اثرسے آزاد رہتی ہیں۔
یہ تحقیق 2سے 4سال کے بچوں پر ہر چھ ماہ کے وقفے کے بعد کی گئی ہے اور نتائج مجموعی تحقیق کے عکاس ہیں۔ محققین نے مطالعہ کے دوران، متعدد ممکنات کو مدِنظر رکھا اور ان کا جائزہ لیا۔ مثلاً؛ 1) کیا بچوں میں کوئی فطری اندرونی صلاحیت ہوتی ہے، جس کے باعث وہ ایک ہی وقت میں الفاظ کا ذخیرہ اور گرامر سیکھتے ہیں یا پھر اس عمل میں ان کا کچھ چیزوں پر انحصار رہتا ہے؟ 2) کیا بچے الفاظ کا ایک خاص ذخیرہ حاصل کرنے کے بعد گرامر سیکھنا شروع کرتے ہیں یا گرامر، الفاظ سیکھنے میں بچوں کے لیے معاون ثابت ہوتی ہے؟ 3) یا پھر وہ خارجی عوامل ہوتے ہیں، جو بچوں میں الفاظ کا ذخیرہ اور گرامر سیکھنے کے عمل کو متحرک کرتے ہیں؟
تحقیق کے اعدادوشمار کی بنیاد پر محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ، بچوں کے الفاظ کا ذخیرہ بڑھانے اور گرامر سیکھنے کے عمل میں امکانی منظرنامہ نمبر 3 ہی بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
اس تحقیق کی روشنی میں، بچوں کو الفاظ کا ذخیرہ بڑھانے اور گرامر سیکھانے کے لیے، والدین اور سرپرستوں کا کردار اہم ہوتا ہے۔ جو والدین اپنے بچوں کو جس کسی زبان میں زیادہ ماہر بنانا چاہتے ہیں، انھیں اپنے بچوں کو اسی زبان میں ماحول فراہم کرنا چاہیے۔
بچوں کی سیکھنے کی صلاحیتوں کا واحد دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ والدین انھیں مطلوبہ زبان میں کس حد تک بہتر سے بہتر ماحول فراہم کرسکتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو مطلوبہ زبان میں جس قدر بہتر ماحول فراہم کریں گے، اس زبان میں بچوں کی کارکردگی اتنی ہی زیادہ اچھی رہے گی۔