……جون ایلیا ……
بلا کے غم اٹھائے جا رہے ہیں
جفا کے تیر کھائے جا رہے ہیں
فدا کرنے کو دینِ مصطفٰےؐ پر
علی اکبر سجائے جا رہے ہیں
قدم دوشِ نبوتؐ پر تھے جن کے
وہ کانٹوں پر پھِرائے جا رہے ہیں
بٹھاتے تھے نبیؐ کاندھوں پہ جن کو
وہ نیزوں سے گِرائے جا رہے ہیں
ہوا تھا جونؔ قائم جن سے پردہ
وہ بازاروں میں لائے جا رہے ہیں
……مظفر وارثی……
لبوں پہ الفاظ ہیں کہ پیاسوں کا قافلہ ہے
نمی ہے یہ یا فرات آنکھوں سے بہہ رہی ہے
حیات آنکھوں سے بہہ رہی ہے
سپاہ فسق و فجور یلغار کر رہی ہے
دلوں کو مسمار کر رہی ہے
لہو لہو ہیں ہماری سوچیں
برہنہ سر ہے حیا تمنائیں بال نوچیں
وفا کے بازو کٹے ہوئے ہیں
ہلاکتوں کے غبار سے زندگی کے میداں پٹے ہوئے ہیں
دھواں ہر اک خیمۂ صدا سے نکل رہا ہے
ہر ایک اندر سے جل رہا ہے
ریا کے نیزوں پہ آج سچائیوں کے سر ہیں
یزیدیت کے اصول اپنے عروج پر ہیں
بڑی ہی ظالم ہے حق پسندی کو چین لینے نہ دے یہ دنیا
ہمیں تو کوفہ لگے یہ دنیا
قدم قدم آزمائشوں کی فضا ملی ہے
ہمیں تو ہر دور میں نئی کربلا ملی ہے