…میر تقی میر…
آئی ہے شب قتلِ حسین ابنِ علی کی
رخصت ہے سحر عترت والاے نبی کی
کٹ جائے گی سب آل رسولِ عربی کی
برہم ہی ہوئی جان لو صحبت یہ کبھی کی
جب اس شہ مظلوم سے تلوار چلے گی
گرد اٹھ کے سوے چرخ ستمگار چلے گی
پاؤں کے تلے سے زمیں یک بار چلے گی
اٹھ جائے گی تہ انس و ملک جن و پری کی
لیکن جو مقدر ہے شہ دین کا ہونا
آزار دلی کھینچنا اس جان کو کھونا
احباب جو ہیں ان کو قیامت تئیں رونا
کس طرح ظفر ہووے نہ اس قوم دنی کی
بے ڈول نظر آتی ہیں اعدا کی نگاہیں
ہے جاے تعجب جو مروّت کو نباہیں
غالب ہے کہ یہ خوبی شبیر نہ چاہیں
سن لیجو کہ ان لوگوں نے سادات کشی کی
ہووے گا نمودار سحر کا جو ستارہ
ہوگا تبھی سے شام کے لوگوں کا گزارا
میداں میں نکل صاف یہ شہ جائے گا مارا
ساتھ اس کے اجل آئے گی یک بار سبھی کی
ہرگز نہ ملے گا کسو کو ایک دم آب
کیا خرد و کلاں پیاس سے ہوجائیں گے بے تاب
تڑپیں گے پڑے خاک میں کیا کیا گہر ناب
دریا پہ یہ آفت پڑے گی تشنہ لبی کی
اکبر کے تڑپنے کے تئیں دیکھے گا مظلوم
مرنا کرے گا گود میں اصغر کا بھی معلوم
سن لیوے گا قاسم کی ہلاکی کی پڑی دھوم
لے جائے گا سب مرتے ہوئے جی ہی میں جی کی
گزرے گی جو کچھ سر کے اپر سب وہ سہے گا
بیٹوں میں، بھتیجوں میں کوئی کم ہی رہے گا
جو وارثی کر باپ کی اِک بات کہے گا
اوقات نے دیکھوگے بہت اس سے کمی کی
برپا کریں گے حشر عجب خیموں میں جاکر
لے جائیں گے پھر سر کے تئیں نیزہ چڑھا کر
لاویں گے بلا اک حرم شاہ میں آکر
دلجوئی نہ عابد کی تسلی نہ کسی کی
چھینیں گے ردائیں سر سکان حرم سے
کچھ کہہ نہ سکے گا کوئی واں فرطِ الم سے
درگوش سکینہ کا اتاریں گے ستم سے
دل داری کرے گا نہ کوئی باپ موئی کی
محجوب نہ ہوگا کوئی شبیر کے رو سے
ہوگا وہ پڑا خاک میں آلودہ لہو سے
کیا زین عبا آنکھ ملاوے گا کسو سے
کچھ چشم کسو سے نہ جسے دادرسی کی
جس جا کہ پڑا خاک میں ہوگا وہ تن پاک
ہووے گی کھڑی مویہ کناں زینب غمناک
کلثوم اڑاوے گی کھڑی ہوکے بہت خاک
پرسش نہ کرے گا کوئی اس خاک ملی کی
اصغر کے لیے بانو المناک پھرے گی
آنکھوں سے لہو روتی جگرچاک پھرے گی
فریادکناں منھ پہ ملے خاک پھرے گی
سننے کے نہیں بات کو اس جان جلی کی
پاس احمدِ مختار کا کرنے کے نہیں کچھ
رو حیدرِ کرّار کا کرنے کے نہیں کچھ
غم عابدِ بیمار کا کرنے کے نہیں کچھ
کیا دیکھیو اس قوم نے دنیا طلبی کی
بے صرفہ چلے آویں گے غارت کے بہانے
لے جائیں گے لوگوں کے تئیں پاؤں چلانے
دیکھو گے کہ اس جمع سراپاے جفا نے
وارث کے موئے پر بھی جفا میں نہ کمی کی
خوش ہوویں گے، دیکھیں گے اسیروں کو جو مغموم
دم لینے نہ دیویں گے، جو ہو ماتمِ مظلوم
انصاف کروگے تو تمھیں ہووے گا معلوم
ان بدگہروں نے کوئی بھی بات بھلی کی
القصّہ وے سب شام کی جانب کو چلیں گے
دل اور جگر آتشِ کربت سے جلیں گے
کم فرصتی وقت سے ٹک دم بھی نہ لیں گے
سن لیجو کہ عابد نے بلا رنج کشی کی
یک چند جدا جا کے وہ رنجور رہے گا
بے گور و کفن یہ تن پرنور رہے گا
ہر جاے بہم میرؔ یہ مذکور رہے گا
کیا سمجھے تھے وے لوگ جو یہ بے ادبی کی