خدا جانے اخبار والوں کو بیٹھے بٹھائے کیا گدگدی ہوتی ہے کہ اچھے بھلے رائج اور معروف الفاظ کے املا میں من مانی اور بلا جواز تبدیلیاں شروع کردیتے ہیں۔ مثلاً حال ہی میں ہم نے ایک اخبار کی سرخی میں ’’وارنٹِ گرفتاری‘‘ کی ترکیب پڑھ کر سر پیٹ لیا(اپنا ، حالانکہ لکھنے والے کا پیٹنا چاہیے تھا)۔ یہ ترکیب بغیر اضافت ہی کے درست ہے کیونکہ وارنٹ انگریزی کا لفظ ہے اور اس پر اضافت کا زیر لگانے کی اطلاع کسی انگریز کو ملے تو ممکن ہے غش کھا جائے۔
انگریز کو تو چھوڑیے خود ہمیں غش آنے والا تھا۔ شکر ہے ایک دوست ساتھ تھے، انھوں نے ہمیں سنبھالا اور ہمارے احتجاج پر سمجھایا کہ جو لوگ ’’دِ کھانا‘‘ کو ’’دیکھانا‘‘،’’بِٹھانا ‘‘ کو’’بیٹھانا ‘‘ اور ’’رُلانا ‘‘ کو ’’رولانا‘‘ لکھتے ہوں انھوں نے اگر انگریزی پر ہاتھ صاف کرلیا تو کیا ہوا۔ پھر انھوں نے ہمدردانہ لہجے میں کہا کہ بھائی بے روزگاری بہت ہے، اپنی محرومیوں کا انتقام اردو سے لینے والے یہ لوگ بے چارے مجبورا ًاردو اخبارات میں نوکری کرلیتے ہیں یا یو ٹیوب پر تماشے لگا لیتے ہیں، اس لیے انھیں معاف کردیجیے۔
اسی طرح کی ایک ترکیب نشان انگوٹھا ہے، یہ بھی بغیر اضافت کے درست ہے یعنی نون پر زیر نہیں ہے کیونکہ انگوٹھا اردو (ہندی یا پراکرت کہہ لیجیے)کا لفظ ہے اور اضافت صرف عربی اور فارسی الفاظ پر آتی ہے۔ وارنٹ گرفتاری، نشان انگوٹھا جیسی تراکیب طویل عرصے سے اردو میں رائج ہیں،اب ان کی غیر ضروری مرمت کی افتاد کیوں پڑی ہے؟
مولوی نذیر احمد دہلوی (جنھیں لوگ آج تک ڈپٹی نذیر احمد لکھتے ہیں ،جانے کیوں )نے مجموعۂ قوانینِ تعزیرات ِ ہند میں انگریزی کی قانونی اصطلاحات کے جو اردو ترجمے کیے تھے وہ ایسے ہیں کہ آج ڈیڑھ سو سال گزرنے کے بعد بھی کوئی انھیں اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں سکا، تبدیل کرنا تو دور کی بات ہے، مثلاً قابلِ دست اندازیِ پولیس،ضمانت قبل از گرفتاری، قابلِ سماعت، زیرِ سماعت، ناقابلِ ضمانت، ضبطیِ جائیداد، قتلِ عمد،قتلِ خطا، وغیرہ۔
خیر ، یہ کوئی اور ذکر نکل آیا۔ بات کرنی تھی دُرفشاں کی ۔ دُرفشاں کی بھی آج کل اخبارات میں شامت آئی ہوئی ہے۔یہ لڑکیوں کا نام بھی ہوتا ہے۔ بھائی لوگ اسے بلا وجہ دُرِّ فشاں لکھ رہے ہیں جو بالکل غلط ہے۔ درست مرکب دُر فشاں ہے۔دُر عربی کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں موتی۔ عربی میں دُر کی ’’رے‘‘ (ر) پر تشدید بھی ہے لیکن اردو والے بغیرتشدید کے بولتے ہیں۔
ہاں اگر کسی مرکب میں لفظ در پر اضافت لگائی جائے تو اردو میں اس پر تشدید کا نشان لگاتے ہیں۔ لیکن در فشاں میں اضافت لکھنا غلط ہے کیونکہ فِشاں (فے کے نیچے زیر) یا اَفشاں (الف پر زبر) فارسی کا لاحقہ ٔ فاعلی ہے (یعنی کوئی کام کرنے والے کو ظاہر کرتا ہے)۔ یہ فارسی کے مصدر افشاندن یا فشاندن سے ہے جس کا مطلب ہے پھینکنا، ڈالنا، بکھیرنا، چھڑکنا، نچھاور کرنا۔اور فشاں کا مطلب ہے: بکھیرنے والا ؍والی،پھینکنے والا؍والی ،نچھاور کرنے والا؍والی، چھڑکنے والا؍والی۔
تو دُرفشاں کا مطلب ہے موتی بکھیرنے والا یا والی، موتی پھینکنے والایا والی۔ اس ترکیب میں اضافت کے زیر کا کوئی کام نہیں ہے۔ اس طرح کی اور تراکیب بھی ہیں ، جیسے: آتش فشاں(وہ پہاڑ جو آگ پھینکتا ہو) ، خوں فشاں،عطر فشاں، شعلہ فشاں، گُل فشاں (جسے ملا کر گلفشاں بھی لکھتے ہیں اور گُل یعنی پھول) اور ان میں بھی زیر نہیں ہے۔
اسی مفہوم میں افشاں کے لاحقے کے ساتھ بھی ایسی کئی تراکیب ہیں اور وہ سب بھی بغیر اضافت کے درست ہیں، جیسے: راحت افشاں، نور افشاں، زر افشاں ، گل افشاں ،شبنم افشاں، گوہر افشاں (اور اسی طرح گل افشانی ، گوہر افشانی، شبنم افشانی)۔ اسی طرح درُ اَفشاں اور دُر فشاں۔ ان میں بھی اضافت لکھنا غلط ہے۔
بعض مرکبات میں لفظ دُر کے نیچے اضافت ضرور آتی ہے مگر وہ مرکب ِ اضافی ہوتے ہیں یا مرکب ِ توصیفی ، جیسے : دُّرِ نجف(مرکب ِ اضافی،نجف کا موتی، مجازاً : شریف و نجیب)، دُرِّ نایاب(مرکب ِ توصیفی،وہ موتی جو نایاب ہو)،دُرِّ یتیم (مرکب ِ توصیفی، وہ موتی جو اکیلا ہو،مراداً: انتہائی قیمتی اور نادر موتی) ۔اور اسی طرح دُرِّ ّشہواراور یہاں دُر کے نیچے اضافت کا کسرہ (یعنی زیر) لازمی ہے کیونکہ یہ مرکب ِ توصیفی ہے۔
شہ یا شاہ یعنی بادشاہ ، وار کے ایک معنی ہیں لائق، موزوں، مناسب۔ دُ رِّ شہوار یعنی بادشاہوں کے لائق موتی، مراداً: نہایت قیمتی چیز ۔ شاید دُرِّشہوار میں موجود اسی اضافت کے خیال سے لوگ دُرفشاں میں بھی زیر لکھنے لگے ہیں لیکن قواعد کی رُو سے دُرفشاں یا دُر اَفشاں مرکب ِ اضافی یا مرکب ِ توصیفی نہیں ہیں، بلکہ مرکب ِ فاعلی ہیں۔ ان میں زیر نہیں چاہیے۔