• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ اور اُس پر شدید وعید

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

آج کل ہم عام طور پر یہ دیکھتے ہیں کہ مسجدوں میں بعض نمازی امام صاحب کے سلام پھیرتے ہی ، کچھ امام صاحب کی اجتماعی دعا کے اختتام پر اور بہت سے نمازی اپنی سنتوں اور نفلوں سے فارغ ہوتے ہی بڑی تیزی کے ساتھ مسجد سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ کچھ اتنی جلدی میں ہوتے ہیں کہ اپنے پیچھے دائیں بائیں نماز ادا کرنے والے نمازیوں کا خیال اور لحاظ تک نہیں کرتے ، بلا جھجک اُن کے آگے سے گزر جاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ ان نمازیوں کے سروں،کندھوں کو پھلانگنے سے بھی گریز نہیں کرتے ،یہ ایک انتہائی بدتہذیبی ،نماز کے آداب کے منافی، اسلامی تعلیمات کے برخلاف اور برا عمل ہے۔ بعض افراد کو تو شاید ایسی ایمرجنسی لاحق ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے کبھی کبھار ایسا کرنے کی ضرورت پیش آجائے، لیکن آج کل جس طرح بہت سے نمازی حضرات ایسا کرتے نظر آتے ہیں۔ 

یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کیا سب ہی کو ہر نماز میں ایسا فوری تقاضا لاحق ہوتا ہے کہ وہ امام کے سلام پھیرتے ہی فوراً بڑی تیزی سے کھڑے ہوتے ہیں، آناً فآناً مسبوق نمازیوں کی نماز کا لحاظ اور احترام کیے بغیر یہ جا ، وہ جا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نمازی کے سامنے سے گزرنے کی جو تنبیہ، شدید ممانعت اور اس گناہ پر جو وعید ہے ،وہ شاید انہیں معلوم ہی نہیں اور وہ اسے گناہ ہی نہیں سمجھتے یا اس عمل پر جو گناہ ہے، اسے وہ معمولی اورہلکا سمجھتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ایک تولوگوں کی نمازیں اُن کے خشوع و خضوع میں مخل ہو کر خراب کرتے ہیں اور دوسرے یہ کہ بجائے مسجد سے نیکی و رحمت لےکر جانے کے گناہوں کا بوجھ اور اللہ کی ناراضی لے کر جاتے ہیں۔

ہمیں بہ حیثیت مسلمان یہ بہت اچھی طرح اور تفصیلاً معلوم ہونا چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ نے نمازی کے سامنے سے گزرنے سے ممانعت فرمائی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا ’’ اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا جانتا کہ یہ کتنا بڑا گناہ ہے تو وہ اس کے سامنے سے گزرنے کے بجائے چالیس سال تک وہیں کھڑے ہونے کو پسند کرتا‘‘۔ (صحیح بخاری) 

اس روایت کے راوی ابو النصر کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ مجھ سے بسربنِ سعید نے چالیس دن کہا یا چالیس مہینے یا چالیس سال کہا۔ لیکن اکثر محدثین و فقہا ء نےیہاں چالیس سال ہی مراد لیا ہے۔ اس کی تائید ایک دوسری روایت سے ہوتی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے ’’چالیس موسمِ خریف‘‘ کے الفاظ فرمائے ہیں اور یہ حدیث بعینہ دیگر کتب صحاح ستہ میں بھی موجود ہے۔ 

اگر اس روایت کو سب سے قلیل مدت یعنی ’’چالیس دن ‘‘ ہی سے مقید کیا جائے جب بھی نمازی کے آگے سے گزرنے کے عمل کا گناہ ہونا اور گناہ کی شناعت واضح ہے۔ اس کے علاوہ سنن ابنِ ماجہ اور صحیح ابن حبان میں حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ایک روایت کے الفاظ میں نمازی کے آگے سے گزرنے پر سو سال تک کھڑے ہو کر انتظار کرنے کو ترجیح دینے کو کہا گیا ہے۔ ابن ماجہ کے الفاظ اس طر ح ہیں کہ’’ اگر تم میں سے کسی کو نماز میں مشغول اپنے بھائی کے سامنے سے گزرنے کے گناہ کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے کہ اس پر کتنا گناہ ہے تووہ سو سال کھڑا رہتا اس (طرح گزرنے) ایک قدم اٹھانے سے بہتر سمجھتا‘‘۔(سننِ ابنِ ماجہ)

اس کے ساتھ ہی امام مالک موطا میں کعب بن احبار کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ’’ اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کو معلوم ہوتا کہ اس پر کتنا گناہ ہے تو اس کے لئے زمین میں دھنس جانا نمازی کے سامنے سے گزرنے سے بہتر ہوتا۔‘‘ (موطاامام مالک) ان تمام وعیدوں سے بڑھ کر یہ وعید کہ رسول اللہ ﷺ نے نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کو شیطان قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’جب تم نماز ادا کرتے وقت آگے سترہ کھڑا کر دو اور کوئی شخص سُترے کے اندر (نمازی اور سترے کے درمیان ) سے گزرنا چاہے تو اسے روکو، اگر وہ نہ رکے تو اسے سختی سے روکو، بے شک وہ شیطان ہے۔‘‘ ّ(صحیح بخاری) 

نبی کریم ﷺ اپنے اور اپنے سُترے کے درمیان سے کسی بھی چیز کو گزرنے نہیں دیتے تھے۔ انہی احادیث اور روایات کی بناء پر محدثین و فقہاء نے نمازی کے آگے سے گزرنے کے عمل کے معاملے میں سخت موقف اپنایا ہے۔ امام شوکانی ؒ فرماتے ہیں ’’یہ حدیث یعنی مذکورہ بالا روایت اس بات کی دلیل ہے کہ نمازی کے آگے سے گزرنا ایسے کبیرہ گناہوں میں سے ہے، جو آگ کو لازم کرنے والے ہیں۔‘‘ (فقہ الحدیث) 

اسی طرح صاحب’’فقہ السنہ‘‘ لکھتے ہیں ۔’’نمازی کے آگے سے یا اس کے اور سترہ کے درمیان سے گزرنے والی احادیث اس عمل کے گناہ ِ کبیرہ ہونے کی دلیل ہیں۔ علامہ ابنِ رشد مالکیؒ فرماتے ہیں اس بات پر تمام فقہاء متفق ہیں ’’نمازی چاہے اکیلا نماز پڑھ رہا ہو یا امام ہو ،اس کے آگے سے گزرنا منع ہے، جبکہ وہ بغیر سترہ کے نماز پڑھ رہا ہو۔ یا اس کے سترہ کے درمیان سے گزرے، سترہ کے پیچھے سے گزرنے میں فقہا ء کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے (بدایۃ المجتھدونہایۃ المقتصد) 

محدثین و فقہاء کی ان تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ نمازی کے سامنے سے گزرنا اُس وقت گناہ ہے جب نمازی اور گزرنے والے کے درمیان سترہ نہ ہو۔ (سترہ سے مراد کوئی آڑ ہے) یا نمازی نے جس چیز کو سترہ بنایا ہے، کوئی اس کے اور نمازی کے درمیان سے گزرے۔ اگر سُترے کے آگے سے کوئی گزرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی اپنے سامنے کجاوے کی پچھلی لکڑی جیسی کوئی چیز رکھ کر نماز ادا کرے تو پھر اس لکڑی کے آگے سے گزرنے والے کی کوئی پروا نہیں کرے۔ ‘‘(صحیح مسلم ) لہٰذا نماز ادا کرنے والے کے لئے بھی مسنون طریقہ یہی ہے کہ وہ سامنے کوئی سترہ قائم کر لے ،تاکہ وہ لوگوں کے سامنے سے گزرنے والے کے لئے گناہ کا سبب نہ بنے۔ اس کی نماز کے خشوع و خضوع میں کوئی خلل بھی واقع نہ ہو۔

علامہ عبدالرحمن الجزیری تحریر فرماتے ہیں کہ نمازی کے آگے سے گزرنا حرام ہے، اگرچہ نمازی نے بغیر کسی عذر کے سترہ نہ رکھا ہو۔ اسی طرح نماز پڑھنے والے کے لئے بھی یہ حرام ہے کہ اپنی نماز سے لوگوں کے آنے جانے میں رکاوٹ بنے اور بغیر سترہ رکھے ،ایسی جگہ نماز پڑھنے لگے، جہاں اس کے سامنے سے بکثرت لوگوں کی آمد و رفت ہو۔ ایسی صورت میں اگر نمازی کے آگے سے کوئی گزر جائے تو اس کا گناہ اسی نمازی ہی کو ہوگا کہ ایسی جگہ نماز کیوں پڑھی جہاں لوگوں کو سامنے سے گزرنا پڑا‘‘۔ (کتاب الفقہ علیٰ المذاہب الاربعہ)

نمازی کے سامنے سے گزرنے کی مختلف صورتوں میں گناہ گار کون ہوگا؟ اس کی چار حالتیں ہیں۔ اولاً یہ کہ اس کی گنجائش ہے کہ نمازی کے سامنے سے نہیں گزرے اور نمازی نے راستہ بھی نہیں روکا، اب گزرے گا تو گزرنے والا ہی گناہ گار ہوگا۔ ثانیاً یہ کسی جانب راستہ نہیں ہے اور نمازی نے راستہ روک لیا ہے، تو نمازی گناہ گار ہوگا، ثالثاً یہ کہ نمازی نے راستہ روکا ہے اور گزرنے والا دوسری طرف سے گزر سکتا ہے تو اب گزرنے سے دونوں ہی گناہ گار ہوں گے۔

رابعاً یہ کہ نمازی نے راستہ نہیں روکا اور گزرنے والے کے لئے دوسرا راستہ نہیں تو اس صورت میں کسی پھر بھی گناہ نہیں ہوگا۔(درِ مختار) اس مسئلے میں ایک اور اصطلاح چھوٹی اور بڑی مسجد کی بھی استعمال کی جاتی ہےجو طویل بحث ہے ۔ بس بہت ہی آسان سا حل جو فقہاء نے بیان کیا، وہ یہ ہے کہ ’’تین صف کے فاصلے سے نمازی کے آگے سے گزرا جا سکتا ہے‘‘۔ اس میں بھی احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ خواہ مسجد ہو یا کوئی اور جگہ، اگر نمازی کے آگے سترہ نہ ہو تو خواہ کتنی دوری سے ہی کیوں نہ ہو ،گزرنے سے اجتناب ہی کیا جائے اور صبر کا مظاہر ہ کیاجائے ،کیوں کہ اس عمل پر سخت گناہ کا خدشہ ہے۔ چند منٹ انتظار کر لینے سے کو ئی آسمان ٹوٹے گا ،نہ قیامت برپا ہوگی۔

ایک اوربات کی وضاحت بھی اہم ہے کہ اگر کوئی کسی نمازی کے بالکل آگے بیٹھا ہو تو کیا اس کے لئے اپنی جگہ سے ہٹنے کی گنجائش ہے، اس سلسلے میں فقہاء کی رائے یہ ہے ’’بیٹھے رہنا اور نمازی کی نماز ختم کرنے کا انتظار کرنا بہتر ہے، اور ہٹ جانا بھی درست ہے، البتہ نمازی کے دائیں یا بائیں جس طرح کم سامنا ہو، اس طرف سے ہٹے ،اب اس میں بھی ایک احتیاط ضروری ہے، وہ یہ کہ مشاہدہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنے پیچھے نماز ادا کرنے والے شخص کی نماز سے فارغ ہونے کا انتظار تو کرتے ہیں ،لیکن وہ نمازی کی طرف منہ کرکے بیٹھ جاتے ہیں یا اپنی جگہ کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ یہ بھی ایک نہایت ہی مکروہ عمل یا طریقہ اور بہت بری بات ہے۔ 

ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جیسے نمازی کے سامنے سے گزرنا ناجائز ہے، بالکل اسی طرح نمازی کی طرف رخ کر کے کھڑا ہونا، یا بیٹھنا بھی علماء کی نظر میں جائز نہیں ،کیوں کہ صحابہؓ بھی اسے برا سمجھتے تھے۔ اس سلسلے میں بخاری میں حضرت عثمان ؓ کی روایت ہے کہ حضرت عثمانؓ نے اسے ناپسندکیا کہ کوئی نمازی کی طرف رخ کر کے کھڑا ہو۔ (صحیح بخاری ) لہٰذا اس کا خاص اہتمام کرنا اور خیال رکھنا چاہئے ، قبلہ رخ بیٹھ کر ہی نمازی کی نماز سے فراغت کا انتظام کریں۔

بندہ جب نماز پڑھ رہا ہوتا ہے تو اس کا رابطہ براہِ راست اپنے معبود سے ہوتا ہے۔ نماز میں بندہ اور اس کا خالق براہِ راست ہم کلام ہوتے ہیں اور بندہ گویااپنے رب اللہ کو دیکھ رہا ہوتا ہے ۔ خالق اور مخلوق کے درمیان یہ دخل اندازی اللہ کو گوارا ہی نہیں۔ لہٰذا جب تک سترہ جو کہ براہِ راست دخل اندازی کو ختم کرتا ہے، درمیان میں حائل نہ ہو، نمازی کے سامنے سے گزرنے سے ہر ممکن احتراز کیا جائے ۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ان آداب پر عمل کرنے اور اس گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)