بہت سوچ بچار کے بعد یہ کالم لکھ رہا ہوں کہ مسئلہ صرف مہنگائی کا نہیں اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مہنگائی کے ہاتھوں عوام کا جینا حرام ہو چکا ہے ہر ماہ کے آغاز میں یکم محرم کا سماں ہوتا ہے جب بجلی کے بل آنا شروع ہوتے ہیں جو آپ کی سوچ سے بھی کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ اکثر اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر آپ کو بل آج موصول ہوا ہے تو بل کی رقم جمع کرانے کی آخری تاریخ صرف اگلا دن ہوتا ہے اگر آپ ایسا نہیں کر پاتے یعنی چوبیس گھنٹوں کی بجائے اڑتالیس گھنٹوں میں بل جمع کراتے ہیں تو اس پر بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے مگر ان میں دس پندرہ ہزار ماہوار پر گھروں میں کام کرنے والے پوری تنخواہ بل کی صورت میں جمع کرانے کے بعد باقی اخراجات کیسے پورے کرتے ہونگےاور یہ نرابجلی کا بل نہیں جو جان کا عذاب بنا ہوا ہے بلکہ ہر چیز کی قیمت دوگنی چوگنی ہو چکی ہے اور لاکھوں میں تنخواہ پانے و الے بھی اب مدد کیلئے آسمان کی طرف دیکھنے لگے ہیں!
مسئلہ صرف مہنگائی کا نہیں اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے جس کا ذکر کالم کے آخر میں کروں گا۔ اس وقت ادویات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں بیمار ہونا یا نہ ہونا کسی کے بس کی بات نہیں اگر بس میں ہوتا تو وہ کبھی بیمار ہونے کا رسک نہ لیتا مجھے ہر مہینے مختلف جسمانی پرابلمز کی وجہ سے ادویات خریدنا پڑتی ہیں اور یوں مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ پچھلی بار یہ دوا کتنے میں ملی تھی اور اس بار کتنے میں ملی ہے ۔فارما سیوٹیکل کمپنیوں نے اندھیر مچایا ہوا ہے وہ جب چاہیں جتنا چاہیں قیمتوں میں اضافہ کر دیتی ہیں مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قیمتوں میں اضافے کی اجازت فی سبیل اللہ نہیں ملتی بلکہ اس میں سرکاری مشینر ی بھی حصہ دار ہوتی ہے بہتر ہو گا کہ اس حوالے سے کمیٹی بنائی جائے جو غیر سرکاری ارکان پر مشتمل ہو اور وہ اس حوالے سے ہونے والی کرپشن پر کڑی نظر رکھے۔حکومت تمام اشیا کی مہنگائی کی ذمہ دار آئی ایم ایف کو ٹھہراتی ہے اور آئی ایم ایف والے کہتے ہیں کہ ہم اپنے اہداف تک پہنچنے کیلئے امراسے زیادہ سے زیادہ وصولی پر زور دیتے ہیں مگر یہ آپ کی حکومت ہے جو اس کی بجائے سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ڈال دیتی ہے ۔دوسری طرف حکومتی عیاشیوں میں بھی رتی برابر فرق نہیں پڑا، اس میں اربوں روپوں کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ نئی کاریں، محلاتی ٹائپ سرکاری عمارتوں کی تزئین و آرائش کا سلسلہ بھی تھمنے میں نہیں آ رہا جس کا سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے کو اٹھانا پڑتا ہے۔جس پر ان کی چیخیں اور چیخوں کے ساتھ بددعائیں بھی سنائی دیتی ہیں اگر کوئی سمجھتا ہے کہ لوگ رو دھو کر چپ ہو جائیں گے تو یہ بھی جان لیں کہ خاموشی کسی بہت بڑے طوفان کی پیش خیمہ ہوتی ہے۔
اور جس بات کی طرف میں نے کالم کے آغاز میں اشارہ کیا تھا وہ یہ ہے کہ اس وقت وفاق میں مسلم لیگ(ن) پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور دوسری جماعتوں کی حکومت ہے مگر متذکرہ تمام تر صورتحال کا خمیازہ صرف مسلم لیگ(ن) کو بھگتنا پڑ رہا ہے کسی دوسری جماعت والوںکی طرف انگلی اٹھائیں تو وہ ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہوتے اور کہتے ہیں کہ ہم تو صرف آئینی عہدوں کے ذمہ دار ہیں حالانکہ سب کچھ ان کی مشاورت سے ہوتا ہے اور اگر نہیں بھی ہوتا تو حکومت سے الگ ہو جائیں مگر حکومتی عہدے بھی نہیں چھوڑتے اور ان کی طرف کوئی انگلی اٹھائے تو ان کا جواب اس شعر کی صورت میں ہوتا ہے؎
آگ لگا کے شہر میں، فتنہ جگا کے دہر میں
جاکے الگ کھڑے ہوئے کہنے لگے کہ ہم نہیں
سو اب سب کچھ مسلم لیگ (ن) کو بھگتنا پڑ رہا ہے شاید انہیں کوئی واضح لفظوں میں بتانے والا نہ ہو کہ وہ اپنی مقبولیت بہت بری طرح کھو رہے ہیں وہ تمام لوگ جو پہلے دن سے نواز شریف کے عشق میں مبتلا ہوئے تھے اور اب بھی مبتلا ہیں کہ انہیں ابھی تک ’’پاکستان کو نواز دو ‘‘کا سلوگن یاد ہے، ان کا خیال تھا کہ حکومت چلنے کی صورت میں مسلم لیگ ’’میڈان جاپان‘‘ کی معیاری مشینری سے تعمیر نو کا کام شروع کرے گی مگر ایسا نہیں ہوا نواز شریف لوگوں کی آخری امید ہیں وہ بھلے سامنے نہ آئیں مگر حکومتی معاملات میں ان کی مشاورت کا عملی اظہار ضرور نظر آنا چاہئے ،میرے سمیت میرا سارا خاندان روز اول سے مسلم لیگ کا حامی اور ان کا ووٹر رہا ہے ان کی وابستگی اب بھی اسی جماعت سے ہے مگر وہ سخت مایوس ہیں یہی صورتحال دوسرے لوگوں کی بھی ہے ایک انتہائی خطرناک صورتحال یہ بھی سامنے آ رہی ہے کہ مسلم لیگ دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے یہ تباہی کی طرف ایک اور قدم ہے ۔میری تشویش ان سب امور سے سِوابھی ہے کہ پی ٹی آئی کے لوگ پاکستان کے بارے میں کوئی بری خبر سن کر خوش ہوتے ہیں اور انکے سوشل میڈیا سے خوشی کے شادیانے سنائی دینے لگتے ہیں۔ کے پی کے میں صورتحال خطرے کے نشان کو چھو رہی ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے پی ٹی آئی کے بانی نے کہا تھا کہ میری حکومت ختم کرنے سے بہتر تھا کہ پاکستان پر ایٹم بم چلا دیا جاتا۔ سو جیسی رو ح ویسے فرشتے ،اس کے باوجود میرا خیال ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی کی بجائے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جائے، وزیر اعظم شہباز شریف اپنی استعداد کے مطابق دن رات محنت کر رہے ہیں مگر عوام اس محنت میں نواز شریف کی بھرپور شمولیت چاہتے ہیں۔ میاں صاحب سے میری گزارش ہے کہ اپنی صحت کی خرابی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عوام کے درمیان جتنا آ سکتے ہیں آئیں۔ ملک اگر اسی طرح چلتا رہا تو خاکم بدہن کوئی حادثہ بھی ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو آج بھی نوازا جا سکتا ہے اگر نواز شریف چہرہ نمائی کریں انہیں دیکھ کر لوگ جی اٹھتے ہیں!