(گزشتہ سےپیوستہ)
کرشن نگر میں کبھی بھارت کی معروف فلم اسٹار کامنی کوشل کا بھی گھر تھا کامنی کوشل کنیئرڈ کالج میں پڑھا کرتی تھیں ان کے والد گورنمنٹ کالج لاہور میں غالباً سائنس کے کسی مضمون کے پروفیسر تھے۔ گزشتہ کالم میں معروف دانشور اشفاق احمد کا نام ٹائپنگ کی غلطی سے اتفاق احمد شائع ہو گیا تھا۔ کرشن نگر ہی میں معروف دانشور و ادیب اور جدید شاعری کے بانی اور ہمارے چچا ڈاکٹر انیس ناگی بھی رہتے رہے ہیں بلکہ بعد میں ان کی اہلیہ عفت ناگی نے اس گھر میں ایک اسکول بھی بنایا تھا جو کئی برس تک رہا اس حوالے سے ہمیں کرشن نگر جانے کا بہت اتفاق ہوتا رہتا تھا۔اس گھر کا نام ہے حسن ولاز جو آج بھی موجود ہے اس جگہ کو کبھی دیوی دیال سٹریٹ بھی کہا جاتا تھا۔ دیوی دیال کی یہاں کافی زمین تھی کسی زمانے میں شری کرشن روڈ کا نیلا بورڈ جس پر سفید رنگ میں اردو اور انگریزی میں لکھا ہوتا تھا ایک عمارت کے اوپر لگا ہوتا تھا اور ساتھ ہی اسلام پورہ روڈ بھی بورڈ لگا ہوتا تھا ۔لاہور میں سب سے زیادہ ہندوئوں کے نام کی اسٹریٹ اور سڑکیں یہاں تھیں اب ان کے نام تبدیل کر دیئے گئے ہیں کرشن نگر کےمکانات پانچ اور دس مرلے کے ہیں قدیم مکانات کو اب آج کی نسل گرا کر مارکیٹیں اور دکانیںہی بنا رہی ہے پھر بھی لاہور میں تین علاقے ایسے ہیں جہاں پر ہندوئوں کے مکانات اور کوٹھیاں سب سے زیادہ ہیں۔ ایک کرشن نگر،دوسرا گوالمنڈی اور تیسرا ماڈل ٹائون ،گوالمنڈی کا احوال بھی کسی روز بیان کریں گے ماڈل ٹائون میں بھی اب صرف گنتی کی پرانی کوٹھیاں رہ گئی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان مکانات میں اکثر میں موٹر کار کے لئے گیراج بھی ہیں۔ دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر مکان کے کارنر پر گلی آجاتی ہے۔ چنانچہ کرشن نگر لاہور کا وہ واحد علاقہ ہے جہاں پر آج بھی سب سے زیادہ گلیاں موجود ہیں۔یعنی 114 گلیاں یا اس سے بھی زیادہ کسی زمانے میں یہ گلیاں بہت ہی صاف ستھری ہوتی تھیں آج بھی صاف ہیں مگر ماضی والی بات نہیں کرشن نگر میں ایک سڑک ایک انگریز کے نام پر بھی ہے۔ ہیرین روڈ، کرشن نگر کو لاہور کے چودہ دروازوں میں رہنے والے ہندوئوں نے 1930ء میں آباد کرنا شروع کیا تھا پہلے یہاں پر دریائے راوی تک کھیت تھے ہم اپنے اسکول و کالج کے زمانے میں گھوڑا ہسپتال کے پچھلی طرف کھیتوں میں سائیکل چلا کر دریائے راوی کشتی رانی کرنے جایا کرتے تھے۔ دور دور تک کوئی آبادی نہ تھی دریائے راوی کے کنارے بھنگ کے پودے ہوا کرتے تھے اکثر ملنگ وہاں بیٹھے بھنگ کوٹ رہے ہوتے تھے ۔عجیب وغریب ماحول ہوتا تھاپھر کئی جادو ٹونے والےبھی دریا کے کنارے بیٹھے جنتر منتر کر رہے ہوتے تھے اور رات کو بھی اس قسم کے لوگ دریا پر آکر جادو ٹونے کیا کرتے تھے۔
کرشن نگر میں سُوری بلڈنگ اور سراج بلڈنگ دو بڑی مشہور تھیں دونوں پر ایک نمبر بس کا اسٹاپ ہوا کرتا تھا آپ حیران ہوں گے کہ ایل او ایس (لاہور اومنی بس سروس سرکاری ) کی بس نمبر 1کی ڈبل ڈیکر کرشن نگر کے آخری بس اسٹاپ سے آراےبازار (رائل آرٹلری بازار) تک آیا کرتی تھی۔ہم خود جب آوارہ گردی کے موڈ میں ہوتے تھے تو دس پیسے کا اسٹوڈنٹس ٹکٹ لیکر گورنمنٹ کالج لاہور سے ڈبل ڈیکر نمبر 1پر سوار ہو کر اوپر والی منزل پر بیٹھ کر رائل آرٹلری بازار کی سیر کو جایا کرتے تھے اور کرشن نگر کے بازاروں سے ڈبل ڈیکر جایا کرتی تھی ۔آپ سوچیں کہ کرشن نگر کے بازار کتنے کھلے تھے کہ ڈبل ڈیکر بس کرشن نگر کے آخری بس اسٹاپ تک جایا کرتی تھی اس کے بعد چوہان روڈ ہے ہم نے خود بے شمار دفعہ اس ڈبل ڈیکر پر سفر کیا ہے بعض اوقات دو ڈبل ڈیکر آمنے سامنے سے آ جاتی تھیں پھر بھی ٹریفک کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا تھا آج کے کرشن نگر میں اب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ڈبل ڈیکر آ سکے۔ہم نے تو اس خوبصورت علاقے کا حلیہ تک بگاڑ دیا ہے۔ دوسری طرف ہم نے سنت نگر، دیوسماج روڈ، ہوتا سنگھ روڈ اور آئوٹ فال روڈ کو کرشن نگر کا حصہ بنانا شروع کر دیا ۔ست نگر کا نام بگاڑ کر اسے سنت نگر کہنا شروع کر دیا ہے اسی طرح ہیرین روڈ کو اب لوگ ہرن روڈ کہتے ہیں ہیرین روڈ کسی انگریز کے نام پر ہے جو درست نام نہیں یہ تمام علاقے ہندوئوں اور سکھوں کے تھے مسلمانوں کے مکانات تو برائے نام تھے مسلمان زیادہ تر چودہ دروازوں کے اندر ہی رہتے تھے۔ 1930ء میں اندرون لاہور کے امیر ہندوئوں نے اس علاقے کو آباد کیا تھا انتہائی خوبصورت منصوبہ بندی کے ساتھ اس علاقے کو آباد کیا گیا تھا ہر دو مکانوں میں گلی لگتی ہے ہر مکان کو کارنر لگتا ہے ۔ہر مکان کی بالکونی ہے جو مکانات مین سڑک پر تھے وہاں پر ان مکانوں پر لکڑی کی بڑی خوبصورت بالکونیاں بنی ہوتی تھیں ابھی بھی ایک دو مکان ایسے رہ گئے ہیں جہاں پر لکڑی کی بالکونیاں ہیں ۔ڈاکٹر انیس ناگی کے گھر حسن ولاز کے سامنے ایک آشرم تھا جس کو مدت ہوئی ختم کر دیا گیا۔کہا جاتا ہے کہ کرشن نگر میں مندر بھی تھا خیر اب اس کا کوئی نام ونشان نہیں۔لاہور میں کرشن نگر، گوالمنڈی اور برانڈرتھ روڈ میں کئی گلیوں کے نام ہندوئوں کے مختلف مذہبی یا دیگر لوگوں کے ناموں پر تھے مثلاً دیوی دیال اسٹریٹ، کرشنا گلی،رام گلی وغیرہ۔
نہرو کے سسرال والے بھی کچھ عرصہ اس علاقے میں رہے تھے یہیں پر نہرو پارک بھی ہے بڑی وسیع گرائونڈ ہے کسی زمانے میں اس گرائونڈ میں بہت رونق ہوا کرتی تھی سُوری بلڈنگ کا نام 1947ء کے بعد نوری بلڈنگ کر دیا گیا۔ دیو سماج روڈ اور وینٹرری یونیورسٹی (گھوڑا ہسپتال) میں کبھی بہت بڑا دھوبی گھاٹ تھا کبھی ہم بھی وہاں سے کپڑے دھلوایا کرتے تھے۔ (جاری ہے)