• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میدانِ جنگ سے اولمپکس تک: جیولین تھرو کی تاریخ پر ایک نظر

ـــ فائل فوٹو
ـــ فائل فوٹو 

پہلے زمانے میں جیولین تھرو یعنی نیزہ بازی سپاہی جنگوں میں حصّہ لینے اور شکاری جنگلوں میں جانوروں کا شکار کرنے کے لیے سیکھتے تھے۔

آج کے جدید دور میں جیولین تھرو کھیلوں کی دنیا کا ایک اہم حصّہ بن گیا ہے اور دنیا کے سب سے بڑے کھیلوں کے ایونٹ اولمپکس میں دنیا بھر سے مختلف ممالک کے ایتھلیٹس جیولین تھرو کے مقابلے میں حصّہ لیتے ہیں۔

جیولین تھرو کی تاریخ

جیولین تھرو کا پہلا مقابلہ 708 قبل مسیح میں یونان میں ہونے والے اولمپکس میں ہوا تھا۔ 

قدیم اولمپک کھیلوں کے مقام اولمپیا کی حالت کئی جنگوں اور قدرتی آفات کے آنے کے بعد بعد بگڑ گئی اور پھر تقریباََ 394 عیسوی میں رومی شہنشاہ تھیوڈوسیئس اوّل نے اولپکس کے انعقاد کو باضابطہ طور پر غیر قانونی قرار دے دیا۔

اولمپکس کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے بعد جیلین تھرو کے مقابلے ہونا بھی بند ہوگئے۔

پھر کئی صدیوں بعد 1700 کی دہائی کے آخر میں ان مقابلوں کا دوبارہ انعقاد ہونے لگا اور دو مختلف انداز میں جیولین تھرو کے مقابلوں کا انعقاد کیا گیا، پہلے طریقے میں مقابلہ جیتنے کے لیے بتائے گئے ہدف پر اور دوسرے طریقے میں سب سے زیادہ دور جیولین پھینکنا ہوتا تھا۔

بعد ازاں، ان دونوں طریقوں میں سے دوسرا والا طریقہ زیادہ مقبول ہوگیا۔

سویڈن کے ایرک لیمنگ جیولین تھرو کے مقابلوں کے سب سے پہلے بہترین ایتھلیٹ تھے، اُنہوں نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک اس کھیل پر راج کیا۔

1932ء میں پہلی بار اولمپکس میں خواتین کے جیولن تھرو کے مقابلے ہوئے جن میں امریکی ایتھلیٹ بیبی ڈیڈرکسن نے گولڈ میڈل جیتا تھا جس کے بعد چند دہائیوں میں جیولین تھرو کی مقبولیت میں بتدریج اضافہ ہوا اور غلبہ نورڈک ممالک سے وسطیٰ یورپ میں منتقل ہو گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ کھیل دنیا بھر میں مقبول ہوگیا۔

خاص رپورٹ سے مزید