حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی بین الاقوامی غنڈے اور امریکہ کے پروردہ اسرائیل کے ہاتھوں شہادت نے عالمی امن کیلئے کی جانے والی کوششوں کو پا ش پاش کر دیا ہے،جسکی وجہ سے عالمی سطح خصوصاً مشرق ِوسطیٰ میں جنگ بادل منڈلانےلگے ہیں ۔ اس شہادت سے غزہ میں جاری جنگ کو مہمیز ملی ہےکیونکہ اسرائیل نے اسی دن لبنا ن میںحزب الله کے نامور کمانڈر محسن کو بھی ڈرون حملے میں شہید کیا ۔لہٰذا عرب خطہ اس وقت جنگ کے شدید دباؤمیں ہے ۔اسرائیل کے ساتھ امن بات چیت میںاسماعیل ہنیہ بذات خود اہم کردار ادا کر رہےتھے۔
برطانوی سامراج نے یہودی لابی کے زیر اثر فلسطین کے مسلم اکثریتی علاقے میں اسرائیل کا غیر قانونی وجودقائم کر کےجس طرح بین الاقوامی قانون کی دھجیاں بکھیریںاسکی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ عرب ریاستوں کے درمیان اسرائیل کا وجود ایک ناسور سے کم نہیں ۔فلسطینی مسلما ن گزشتہ چھ دہائیوں سے اسرائیل کے ہاتھوں شہیدہو رہے ہیں ۔امریکہ اور مغر بی ریاستیں جو انسانی حقوق کی حفاظت کیلئے بڑی ’’حساس‘‘ہیں، فلسطین میںبچوں، عورتوں اوربوڑھوں کی ہلاکت پر نہ صرف دم سادھے بیٹھی ہیں بلکہ اسرائیل کو اسلحہ کی سپلا ئی بھی جاری رکھےہوئے ہیں ۔اسرائیل کی مسلم لیڈروں کو شہید کرنے کی پالیسی پر اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئےہیں اسرائیل نے ایران کے نصف درجن سےزائد نیو کلیئر سائنس دانوں اور متعدد فوجی افسران کو نشا نہ بنایا۔مگر مجال ہے کہ بین الا قومی سطح پر کسی نے اس کی مذمت کی ہو ۔ اسماعیل ہنیہ کے تین بیٹوں ، بہن ، پوتے پوتیوں کو ظالمانہ طریقے سے نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا۔غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا مگر بین الاقومی برادری بشمول مسلم وعرب ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ حماس کی طرف سے غزہ میں جاری جنگ رکوانےکیلئے اسما عیل ہنیہ اہم کردار ادا کر رہے تھے اورسب امید کر ر ہےتھے کہ جلد جنگ بندی کا معاہدہ طے پا جائے گا مگر امن کیلئے کردار ادا کرنے والے اسماعیل ہنیہ کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئےخاموش کروا دیا گیا ۔ اسرائیل کو زیادہ شہ فلسطینی گروپوںکے باہمی اختلافا ت کی وجہ سے ملتی ہے۔الفتح، حماس ، لبریشن آرمی اور لبنان میں حزب اللہ اور دیگر گروپس انفرادی طور پر فلسطین کی آزادی کیلئے اسرائیل سے نبرد آزما ہیں ۔اگر یہ سب اکھٹے ہو جائیں تو صورت حال مختلف ہو سکتی ہے ۔ چین نے گزشتہ دنوں فلسطین کے تمام گروپس کو بیجنگ میں اکٹھا کر کے ان کے درمیان اتحاد کی بات چیت کا آغاز کروایا تھا اور اسماعیل ہنیہ ان مذاکرات سے فارغ ہو کر ہی تہران آئے تھے تاکہ ایران کے نو منتخب صدر مسعود پز یشکان کی حلف برداری میں شریک ہو سکیں ۔حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے بعد ان کی قیام گاہ میں ان کوظالمانہ کارروائی کانشانہ بناتےہوئے شہید کر دیا گیا۔ اسرائیل کی طرف سے داغے گئے میزائل نے انہیں براہ راست نشانہ بنایا ۔ امریکی اخبار کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ وہ اپنے کمرے میں نصب بم کے پھٹنے سے شہید ہوئےکیونکہ دو ماہ قبل کسی کمرے میں بم نصب کر دینا اس امید پر کہ اسماعیل ہنیہ اس میں قیام کریں گے ایک ناممکن سی بات ہے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت سےخطے میں جنگ بڑھنے کے امکانات زیادہ ہو گئے ہیں کیونکہ ایران نے ان کی شہادت کا بدلہ لینے کا اعلان کر دیا ہے ایران کے سپریم لیڈر آیت الله خامنہ ای نے اس سلسلے میں احکامات بھی جاری کر دیئے ہیں ۔ ممکنہ جنگ ایران کے نئے صدر کا بھی امتحان کہ وہ اس مرحلے سے کیسے گزرتے ہیںکیونکہ انہیں ابھی عہدہ سنبھالے ہوئے چند دن ہوئے ہیں۔ ایران اور اس کی قیادت پر اس شہادت کا بدلہ لینے کے لیے شدید دبائو ہے اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کو شہید کر کے جنگ کی آگ کو غزہ سے باہر منتقل کرنے کا پروگرام بنایا ہے اس نے لبنان میںحزب اللہ کے اہم لیڈر کو بھی شہید کیا ہے۔ اسرائیل کے عزائم جنگ کو وسعت دینے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتے۔ اگر مشرق وسطیٰ میں جنگ پھیلتی ہے تو دنیا پر اس کے بہت برے اثرات پڑیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)