• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ سندھ اس حقیقت کی ترجمان ہے کہ وادی سندھ کی ثقافت بے شمار اقوام کی جدوجہد، بقا و ترقی اور سالمیت کی داستان ہے، تاریخ کے مختلف ادوار میں جو قومیں اس وادی میں ہجرت یا نقل مکانی کر کے آئیں، ان میں صرف مسلمانوں کو اس بات کا اعزاز وامتیاز ملاکہ انہوں نے سندھ کے باشندوں کو ابتدائی ایام ہی سے رواداری، امن وسلامتی، اخوت ومحبت، انسان دوستی اور اسلامی شعائر و اقدار کو اپنانے کا درس دیا۔

باب الاسلام، وادی مہران کی ثقافت کا شمار دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں اور ثقافتوں میں ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سندھ کی دھرتی امن و محبت کی ترجمان اور وفا پرستوں پر مہربان ہے۔ اسی محبتوں کی امین ،دھرتی ماں سے محبت و پیار کرنے کا درس دینے والے صوبۂ سندھ کے علاقے مٹیاری کے گاؤں ہالا حویلی میں سید حبیب شاہؒ کے گھرانے میں عظیم صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ہوئی۔

حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کا سلسلۂ نسب شیرخدا حضرت علیؓ اور رسول اکرم ﷺ تک پہنچتا ہے۔ شاہ لطیفؒ نے ابتدائی تعلیم نور محمد بھٹی سے حاصل کی ، وہ بھٹ شاہ سے بارہ میل دور گاؤں وائی کے رہنے والے اور مشہور مدرس تھے۔ جب کہ آپ نے اپنے والد شاہ حبیبؒ سے دینی تعلیم حاصل کی۔ شاہ لطیف آغاز ہی سے شعر گوئی کی جانب رغبت رکھتے تھے، عشق الٰہی میں ڈوبے ہوئے تھے۔

آپ کارجحان شعر گوئی، سیاحت، بزرگوں فقیروں کی محبت میں بیٹھنا اور یاد الٰہی میں مشغولیت ہوگیا۔ آپ کا بچپن بالا حویلی کےماحول میں والدین کے ساتھ گزرا۔ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒنے سندھ کی زبان، ادب ثقافت، رومانوی داستانوں اور ثقافتی پہلوؤں کو اسلامی رنگ میں رنگ دیا، ان کی کافیاں، ان کےقصےدراصل اللہ کی عظمت وحقانیت اور اس کی وحدانیت کا شاعرانہ اظہار ہیں۔

شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ نے مٹیاری کے ایک قریبی قصبے میں سکونت اختیار فرمائی، جسے آغاز میں بھٹ کے نام سے پکاراجاتا تھا، لیکن یہ علاقہ اب آپ کی نسبت سے ’’بھٹ شاہ‘‘ کے نام سے مشہورومعروف ہے۔ یہیں سے آپ نے علم وعرفان کے چشمے جاری کئے،رشد وہدایت کی شمع فروزاں کی ۔آپ کا مقصدِ حیات انسان کو اللہ عزوجل سے جوڑنا، حسنِ اخلاق اور پاکیزہ کردار سے آراستہ کرنا ، محبت وخلوص سے آشنا کرنا اور دکھی انسانیت کوامن و محبت کا پیغام دینا تھا۔

اس مقصد کے لئے آپ نےان تھک کوشش کی اور اپنے اس پیغام کو اپنی روحانی شاعری کے ذریعے عام کیا، لوگوں کی اصلاح کی،آپ کی شاعری کا موضوعِ خاص خالق اور مخلوق کی محبت ہے ، شاہ لطیف نےاپنی شاعری سے محبت کا چراغ روشن کیا ، لوگوں کی زندگی میں ایک نئی امنگ اور ولولہ پیدا کیا۔ آپ کے کلام کا مجموعہ ’’شاہ جو رسالو‘‘ کے نام سے مشہور ہے جو کہ نہایت عقیدت واخلاص کے ساتھ پڑھا اور سنا جاتا ہے۔’’ شاہ جو رسالو‘‘ آپ کی صوفیانہ شاعری کا مجموعہ ہے۔(تذکرہ صوفیائے سندھ)

آپ نے عمر کا بیش تر حصہ سیروسیاحت، فقیروں، درویشوں اور صوفیوں کی صحبت میں گزارا، ان سے فیض حاصل کیا۔ اس فیض کو اپنی فطری شعر گوئی کی قوت و صلاحیت کے نتیجے میں اشعار میں ڈھالا، چونکہ آپ سچے عاشق تھے اور عشق مجازی سے عشق حقیقی اور عشق الٰہی کی طرف پہنچے تھے، اسی لیے آپ کے کلام میں سوز و گداز بھرپور ہے، جو موسیقیت طبیعت میں تھی، وہی شاعری میں جھلک آئی، ان کی شاعری میں صوفیانہ رنگ، شعریت و موسیقیت سب ہی کچھ ملتا ہے۔

آپ کی شاعری میں خالق حقیقی سےمحبت اورعقیدت کا درس بہت نمایاں نظر آتا ہے، ارض سندھ سےمحبت کےاعتبار سےوہ آج بھی سندھی زبان کےسب سے بڑے شاعر ہیں۔ غریبوں کےساتھ حقیقی انس اور محبت بھی ان کی شاعری کا خاص موضوع ہیں۔ والد کی وفات کے بعد آپ نے ریت کے ایک ٹیلے پر حیدرآباد کے قریب ایک نئی بستی آباد کی جو بھٹ شاہ کےنام سےمشہور ہوئی۔ یہیں آپ نےاپنی ساری عمر گزار دی۔

شاہ صاحب کا کلام، ان کی شاعری سندھ کی حدود سے نکل کر برصغیر پاک و ہند،بلکہ ساری دنیا میں مشہور ہوگئی، یہ آپ کی انسان دوستی، دھرتی سے محبت، عشق الٰہی پر مشتمل کلام ہے، جوبے پناہ مقبول ہوا۔ آپ کا شمار دنیا کے اہم صوفی شعراء میں ہوتا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ سندھ کا ہزارہا برس کا تہذیبی سفر بھی شاہ صاحب کے بغیر نا مکمل ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ’’عظیم شاعر کی ایک پہچان یہ ہے کہ جس شدت سے اس نے اپنے عوام سے محبت کی، عوام نے بھی ویسی ہی والہانہ عقیدت سے اسے اپنایا‘‘۔

شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کی شاعرانہ خصوصیات، تصوف پسندی کے رجحانات اور انسانی عظمت کی آشنائی کے حوالے سے قاضی جاوید اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں۔ شاعری کے میدان میں آپ کو جو ممتاز مقام حاصل ہے، اتنا ہی ممتاز مقام و مرتبہ انہیں دنیائے فکر و دانش میں بھی حاصل ہے، ان کی شاعری جمالیاتی اور لسانیاتی اہمیت کی حامل ہے، اس کا فکری پہلو نہایت نمایاں ہے، اسے نظرانداز کرنا محال ہے۔

شاہ صاحب بنیادی طور پر شاعر سے زیادہ حکیم ہیں ، انہوں نے افکار کے اظہار اور ابلاغ کے لیے شاعری کو وسیلہ و ذریعہ بنایا۔ یہ بات بڑے وثوق سے بیان کی جا سکتی ہے کہ سچے انسان دوست، دانش ور اور عظیم فن کار و صوفی کی حیثیت سے ان کی دانش وری، شاعری اورکلام پوری نسل انسانی کا خوبصورت سرمایہ ہے۔ (قاضی جاوید/ ہندی مسلم تہذیب صفحہ 273)

شاہ صاحب نے کیا خوب فرمایا :اگر وفا کرنی ہو توندی کنارےلگی گھاس کی طرح کروکہ کبھی کوئی ڈوبتا ہوا اس کا سہارا لے تووہ اسے بچالیتی ہے، یا پھر خود بھی کناروں سے ناطہ توڑکر اس کے ساتھ (ہی) ڈوب جاتی ہے۔

شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ نے بھٹ شاہ میں سکونت اختیار کی اور وہیں 1752ء بمطابق 14 صفر 1165ھ میں رحلت فرمائی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں شاہ صاحبؒ نے روحانیت و معرفت اور شعر وتصوف کو معراج کمال پر پہنچایا۔ ’’بھٹ‘‘ سندھی میں ریت کے ٹیلے کو کہتے ہیں۔ جب یہ مقام شاہ صاحبؒ کا روحانی مسکن بنا تو یہ ویران علاقہ آباد ہوگیا اور اس کا نام بھٹ شاہ یعنی شاہ صاحبؒ کا ٹیلہ قرار پایا۔ بھٹ شاہ آج وادی مہران میں ایک امتیازی شان کا حامل ہے، یہاں آپ کا مزار مرجع خلائق ہے۔