(گزشتہ سے پیوستہ )
گوروں کو بادامی باغ بہت پسند تھا وہاں پر وہ کئی میٹنگیں بھی کیا کرتے تھے۔ سکھوں کے ساتھ کئی مذاکرات بھی اس باغ میں کئے گئے۔ مہا راجہ شیر سنگھ کے زمانہ میں 1842ء میں وائسرائے ہندوستان لارڈ آکلینڈ نے افغانیوں کے ساتھ مذاکرات اس تاریخی باغ میں کئے تھے۔ اس باغ کے دلکش سبزہ زاروں کو دیکھ کر انسان حیرت میں مبتلا ہو جاتا تھا۔ مستی دروازہ سے باہر آتے ہی کبھی یہ باغ نظر آتا تھا اب تو دھواں، آلودگی، گندی لاریاں، ریڑھے اور چنگ چی انسان کا استقبال کرتے ہیں۔ مہاراجہ شیر سنگھ کے حکم پر ایک عارضی بنگلہ بھی یہاں بنایا گیا تھا اس خصوصی تقریب میں اس قدر عطر استعمال کیا گیا کہ تقریب کے پانچ سال بعد تک بادامی باغ کی مٹی سے خوشبو آتی رہی کبھی اس باغ میں گوروں کی بیگمات کے لئے باجا بھی بجتا ہوتا تھا اور سینکڑوں تماشائی یہ باجا سننے آتے تھے۔ کہتے ہیں کہ کبھی یہاں شہزادی گل بادام کا مقبرہ بھی تھا مگر جب بادامی باغ ریلوے اسٹیشن قائم ہوا تو اس مقبرے کا نام ونشان بھی مٹ گیا۔
گوروں کو اگرچہ یہ باغ بہت پسند تھا مگر وہ دیسیوں یعنی مقامی آبادی سے دور رہنا چاہتے تھے اس باغ میں ان کی بیگمات بھی سیر کو آتی تھیں چنانچہ گوروں نے وہ باغ فروخت کرکے لارنس گارڈن (باغ جناح) کو آباد کیا تھا ۔بادامی باغ کے ہی قریب منٹو پارک ہے جہاں پر 23مارچ1940ء کو تاریخی جلسہ ہوا تھا۔ منٹو پارک (اقبال پارک) کے پہلوانوں کے اکھاڑے کے ساتھ بیڈمنٹن کا کورٹ تھا وہاں پر ہم نے ایک مدت تک بیڈمنٹن کھیلی ہے کیا زبردست ماحول ہوتا تھا ایک طرف پہلوان کسرت کر رہے ہوتے تھے تو دوسری طرف پتنگوں کے پیچ لڑائے جاتے تھے اور پورے گرائونڈ میں ہر عمر کے بچے اور بڑے کھیل رہے ہوتے تھے۔
بادامی باغ میں لاہور کا سب سے پہلا واٹر پمپنگ اسٹیشن گوروں نے 1860ء میں قائم کیا تھا ہم اس پمپنگ اسٹیشن کو بڑی مدت کے بعد دیکھنے چلے گئے آج سے چند بر س پہلے تک لاہور کے اس پہلے واٹر پمپنگ اسٹیشن کی صورتحال بہت بہتر تھی مگر اب یہ خاصی خستہ حالت میں ہے یہ وہ تاریخی پمپ ہے جو زمین سے پانی حاصل کرکے شہر کے اندر پانی والا تالاب کو بھرتا تھا اور پھر پانی والا تالاب سے پانی لاہور کے چودہ دروازوں تک یعنی آبادی تک پہنچایا جاتا تھا آج بھی ایک زمین دوز لوہے کا کوئی ایک فٹ قطر کا پائپ یہاں پر ہے یہ لوہے کا پائپ آج بھی استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔
مغلوں اور سکھوں کے دور میں اندرون لاہور گھروں تک پانی پہنچانے کا کوئی انتظام نہیں تھابلکہ ہر محلے، کٹڑی،احاطے اور کوچے میں واقع اکثر مکانات میں چھوٹے کنویں ہوا کرتے تھے ہینڈ پمپ بھی بعد میں آئے تھے ہینڈ پمپ تو آج بھی استعمال ہوتے ہیں کبھی لاہور کا پانی صرف تیس فٹ پر آ جاتا تھا اب تو دو سو فٹ پر جاکر پانی ملتا ہے وہ بھی صاف پانی نہیں۔ ان کنوئوں کے اوپر ایک گول چرخی پر بوگی لگی ہوتی تھی اور گھر کی عورتیں ان کنوئوں سے پانی حاصل کرتی تھیں یہ چھوٹے کنویں کہلاتے تھے۔ بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ جس گھر میں کنواں نہیں ہوتا تھا تو وہ ہمسایوں کے گھر سے پانی حاصل کیا کرتے تھے کیا بھائی چارے والی فضا تھی۔ ارے بابا اگر کسی گھر میں کوئی کھانے کی زیادہ چیز پک جاتی تھی تو وہ ہمسایوں کو بھیج دی جاتی تھی، بلکہ ایک دوسرے گھر سے کھانے پینے کی اشیاء عام طور پر مانگ بھی لی جاتی تھیں اگر کسی گھر میں مہمان زیادہ آ جاتے تو دوسرے گھر والے اپنے بستر اور چارپائیاں تک دے دیا کرتے تھے۔
پھر لاہور میں ماشکی بہت ہوتے تھے آپ کو یہ سن اور پڑھ کر حیرت ہو گی کہ لاہور میں مغل، سکھ اور انگریزوں کے دور میں کچھ عرصہ تک لاہور میں ماشکیوں (بہشتیوں) کا بڑا کام تھا بلکہ اندرون لاہور ایک کوچہ ماشکیاں بھی تھاجہاں پر سارے ماشکی رہا کرتے تھے جو چمڑے کی ایک بڑی ساری مشک میں کئی گیلن (اب لیٹر) پانی بھر کر لاہور شہر کے مکانوں کی تیسری اور چوتھی منزل تک جایا کرتے تھے لاہور کے ہر اسکول میں صبح سویرے اسمبلی سے پہلے ماشکی اسکول کی سڑک اور گرائونڈز میں پانی کا چھڑکائو کیا کرتے تھے۔مٹی پر پانی کے چھڑکائو سے ایک بھینی بھینی خوشبو آیا کرتی تھی شہر میں جب ماشکی پانی کا چھڑکائو کرتا تو اس کے آگے کبھی کبھی ایک گھنٹی بجانے والا بھی ہوتا جو لوگوں کو خبردار کرتا تاکہ لوگوں کےکپڑے چھینٹے پڑنے سےخراب نہ ہو جائیں۔ ہمارے اسکول گورنمنٹ سنٹرل ماڈل میں ماشکی صبح اور دوپہر کو بریک کے بعد پانی کا چھڑکائو کیا کرتے تھے اس سے پورے اسکول میں فضا ٹھنڈی اور بھینی بھینی خوشبو سے بھرپور رہتی تھی۔
خیر ہم لاہور کے اس سے پہلے سٹیم واٹر پمپنگ اسٹیشن کی خستہ حال عمارت پر جا پہنچے اس کی کوئی ڈیڑھ سو فٹ چمنی دور سے نظر آتی ہے ہم اس واٹر پمپنگ اسٹیشن پر بڑی دیر تک رہے ہمارا خیال تھا کہ کوئی آئے گا اور پوچھے گا۔خیر ہم نے اس واٹرپمپنگ اسٹیشن اور جہاں سے اس کے انجنوں کو سٹیم ملتی تھی اس کی فوٹو گرافی کی۔ یہ لاہور کی پہلی پانی سپلائی کرنے کی مشین تھی جو بھاپ کے ذریعے چلتی تھی اور زمین سے پانی حاصل کرتی تھی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس STEAM ENGINE DRIUEM PUMP کے ذریعےراوی سے پانی سے حاصل کرکے یہاں لایا جاتا تھا یہ بات ہمیں درست معلوم نہیں ہوتی اس زمانے میں راوی دریا یہاں سے کافی دور جا چکا تھا اور اس زمانے میں کوئی فلٹریشن کا نظام نہیں تھا۔ یہ واٹر پمپنگ اسٹیشن زمین سے پانی حاصل کرکے پانی والا تالاب جو کہ ہیرا منڈی کے نزدیک ہے اور لاہور شہر کی باقی جگہوں سے ذرا بلندی پر ہے اس کے واٹر ٹینکوں میں ڈالا جاتا تھا اور پھر پورے شہر کو پانی سپلائی ہوتا تھا۔پانی والا تالاب سے آج بھی پانی اندرون شہر کو ملتا ہے البتہ واٹر پمپنگ اسٹیشن کو کیوں بند کر دیا گیا۔ جبکہ 1970ء تک کام کرتا رہا حالانکہ اگر حکومت اور متعلقہ ادارے چاہتے تو یہ آج بھی کام کر سکتا ہے اس واٹر پمپ اسٹیشن میں پہلے پانچ سے چھ کنواں تھے جہاں سے پانی حاصل کیا جاتا تھا اس کے بارے میں کوئی واضح بات سامنے نہیں آئی اس واٹر پمپنگ اسٹیشن کو چلانے کے لئے کوئلہ کا استعمال ہوتا تھا اور پھر سٹیم کے ذریعے اس کی بھاری کم مشینری کو چلایا جاتا تھا۔ (جاری ہے)