• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

5 سال میں نجکاری ٹرانزیکشنز سے 4 ارب 38 کروڑ آمدن ہوئی، قائمہ کمیٹی کو بریفنگ

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کے اجلاس میں بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ گزشتہ 5 سال میں نجکاری ٹرانزیکشنز سے 4 ارب 38 کروڑ آمدن ہوئی، آپریشنل اخراجات ملا کر مجموعی طور پر ایک ارب 99 کروڑ خرچ ہوئے۔

سینیٹر طلال چوہدری کی زیر صدارت سینیٹ کی نجکاری کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اس دوران گفتگو کرتے ہوئے سیکریٹری نجکاری ڈویژن نے بتایا کہ ڈسکوز کی نجکاری کےلیے وزیراعظم نے کمیٹی تشکیل دی تھی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ کمیٹی نے 6 مئی کو اپنی سفارشات پیش کی تھیں، کمیٹی نے پہلے مرحلے میں 3 ڈسکوز کی نجکاری کی تجویز دی تھی۔ آئیسکو، گیپکو اور فیسکو کی نجکاری پہلے مرحلے میں کی جائے گی۔

انکا کہنا تھا کہ ڈسکوز کی نجکاری کا پہلا مرحلہ ایک سال کےلیے ہے جبکہ دوسرا مرحلہ ایک سے تین سال تک ہے۔

سیکریٹری نجکاری ڈویژن کا کہنا تھا کہ ڈسکوز کی نجکاری کےلیے بھی پیشگی شرائط پوری کرنی ہیں۔ ان شرائط پر پاور ڈویژن ورلڈ بینک کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔

سینیٹر بلال احمد نے سوال کیا کہ کیا ڈسکوز کے ملازمین نجکاری پر احتجاج نہیں کریں گے؟ تو اس پر سیکریٹری نجکاری ڈویژن کا کہنا تھا کہ حکومت کا یہ مائنڈ ہے کہ اس کا بزنس سے کوئی تعلق نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ 2015 کے بعد پی آئی اے نے 500 ارب کا مزید نقصان کیا، ڈسکوز کی نجکاری کےلیے بھی پیشگی شرائط پوری کرنی ہیں، ان شرائط پر پاور ڈویژن ورلڈ بینک کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔

گزشتہ 5 سالوں میں نجکاری کے عمل پر آنے والے اخراجات اور آمدن پر بریفنگ دیتے ہوئے سیکریٹری نجکاری ڈویژن کا کہنا تھا کہ گزشتہ 5 سال میں نجکاری ٹرانزیکشنز سے 4 ارب 38 کروڑ روپے آمدن حاصل ہوئی۔ نجکاری پر اس دوران ایک ارب 40 کروڑ روپے خرچ کیے گئے، آپریشنل اخراجات پر ملا کر مجموعی رقم ایک ارب 99 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔

بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ نیشنل پاور پارک کمپنی کو نجکاری لسٹ سے نکال دیا گیا۔ نیشنل پاور پارک کمپنی کی نجکاری کےلیے 33 کروڑ روپے فنانشل ایڈوائزر کو دیے گئے۔

اس پر چیئرمین کمیٹی طلال چوہدری نے سوال کیا کہ اتنا خرچہ کر کے پھر نجکاری کیوں روک دی گئی؟ جس پر سیکریٹری نجکاری ڈویژن نے کہا کہ حکومت نے ہی بعد میں اس کمپنی کی نجکاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

سیکریٹری نجکاری ڈویژن کا کہنا تھا کہ پاکستان اسٹیل ملز کو بھی نجکاری کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔ اسٹیل ملز کےلیے 3 سالوں میں فنانشل ایڈوائزر کو 12 کروڑ 70 لاکھ روپے ادائیگی ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کابینہ نے اسٹیل ملز کو ڈی لسٹ کردیا تھا، اسٹیل ملز کی نجکاری نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ صرف ایک بڈر رہ گیا تھا۔ حکومت کا خیال تھا کہ ایک بڈر کے ساتھ جانا ٹھیک نہیں رہے گا۔

بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ جناح کنونشن سینٹر کو بھی نجکاری کی لسٹ سے نکال دیا گیا۔ اس پر فنانشل ایڈوائزر کو 70 لاکھ روپے ادائیگی ہوئی۔ جناح کنونشن سینٹر کی نجکاری پر سی ڈی اے کے کچھ اعتراضات تھے۔

رکن کمیٹی سینیٹر بلال احمد نے استفسار کیا کہ نجکاری کےلیے فنانشنل ایڈوائزر ہائر کیوں کیا جاتا ہے؟ جس کا جواب دیتے ہوئے سیکریٹری نجکاری ڈویژن کا کہنا تھا کہ فنانشل ایڈوائزر بتاتا ہے کہ ادارے کی نجکاری ہوسکتی ہے یا نہیں؟

قومی خبریں سے مزید