اسلام آباد (انصار عباسی) وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی مبینہ کرپشن کیخلاف نیب کی تحقیقات یہ جاننے کا ایک بہترین کیس ہے کہ سیاست زدہ قومی احتساب بیورو کس طرح اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ایک ایسے بڑے سیاست دان کو بلیک میل کرتا رہا ہے جو عمومی طور پر اچھی ساکھ کی حامل شخصیت سمجھے جاتے ہیں، حالانکہ ادارے کے اپنے کئی عہدیداروں نے یہ کیس بند کرنے کی سفارش کی تھی کیونکہ ملزم کے خلاف کبھی کوئی ٹھوس مواد نہیں ملا تھا۔ سرکاری دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسحاق ڈار کیخلاف سات مرتبہ مختلف انکوائری افسران نے الزامات کی تحقیقات کی ہیں اور ہر مرتبہ یہی سفارش کی گئی کہ ’’کیس بند کردیا جائے‘‘۔ لیکن 2000ء سے لے کر یکے بعد دیگرے آنے والے چیئرمین نے یہی ہدایت دی کہ فی الحال کیس کو روکے رکھیں۔ اسحاق ڈار کیخلاف تحقیقات کا آغاز 2000ء میں ہوا تھا اور 10؍ اپریل 2001ء کو اس وقت کے انکوائری افسر ایف آئی اے کے شوکت علی نے یہ کہہ کر کیس بند کرنے کی سفارش کی تھی کہ الزامات ٹھوس نہیں ہیں۔ لیکن ایک ہفتے بعد ہی یعنی 24؍ اپریل 2001ء کو یہ کیس ایک اور افسر ابوذر سبطین کو دیدیا گیا جنہوں نے اسی سال جولائی میں کیس بند کرنے کی سفارش کی۔ انکوائری بند کرنے کی بجائے، فروری 2000ء میں نیب کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے اعتر ا ف کیا کہ ڈار کیخلاف ٹھوس شواہد نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود شریف خاندان کیخلاف بیان حاصل کرنے کیلئے اسحاق ڈار کا کیس زیر التوا رکھنا مناسب رہے گا۔ بعد میں جولائی 2002ء میں نیب کے استغاثہ اور پراسیکوشن ڈویژن نے بھی کیس ختم کرنے کی سفارش کی لیکن اس وقت کے چیئرمین نے 27؍ جولائی 2002ء کو کیس التوا میں ڈالنے کی ہدایت دی۔ 20؍ دسمبر 2002ء کو کیس دوبارہ کھول دیا گیا لیکن اس وقت کے ڈائریکٹر مانیٹرنگ نے ایک مرتبہ پھر کیس بند کرنے کی سفارش کی۔ 27؍ دسمبر 2002؍ کو ڈی جی (آئی ایم) نے منٹ شیٹ پر یہ مشاہدہ پیش کیا کہ یہ کیس فی الحال التوا میں رکھا جائے تاوقتیکہ ڈار سلطانی گواہ کی حیثیت سے عدالت میں کوئی بیان دیں۔ یہ کیس مختلف افسران کے پاس کارروائی کیلئے رکھا گیا تاوقتیکہ اس وقت کے اے پی جی اے نے فائل پر 17؍ جولائی 2003ء کو یہ نوٹ لکھا کہ ’’میں، نجم، نے دو تین قبل چیئرمین کو بریفنگ دی۔ آج میں نے چیئرمین کے پاس یہ فائل پیش کی۔ وہ چاہتے تھے کہ یہ معاملہ فی الحال روک دیا جائے۔‘‘ دستاو یزات کے مطابق، یہ معاملہ دوبارہ بحال ہوگیا اور ستمبر 2004ء میں کیس پر دوبارہ کارروائی شروع ہوئی۔ لیکن 9؍ ستمبر 2004ء کو چیئرمین نے ایک مرتبہ پھر ہدایت دی کہ کیس فی الحال التوا میں رکھا جائے۔ کیس پر 22؍ دسمبر 2005ء کو دوبارہ کارروائی شروع ہوئی اور فیصلہ کیا گیا کہ ڈار کے بیرون ملک اثاثوں کی تفصیلات حاصل کی جائیں۔ ستمبر 2008ء میں ان کے پاکستان اور بیرون ملک اثاثوں کی تمام تر تفصیلات کی رپورٹ تیار کی گئی جس میں یہ بھی سفارش کی گئی کہ کیس بند کر دیا جائے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈار کا تعلق نہ صرف ایک مستحکم خاندان سے تعلق رکھنے ہیں بلکہ پیشے کے لحاظ سے چارٹرڈ اکائونٹنٹ بھی ہیں اور انہوں نے کافی پیسہ کمایا ہے۔ انہوں نے ایسی کوئی سرمایہ کاری یا اخراجات نہیں کیے جو ان کی آمدنی کے مطابق ناجائز ہوں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ڈار 2002ء سے شیخ اے نہیان کے مالی مشیر بھی ہیں جس کا انہیں بھاری معاوضہ ملتا ہے۔ رپورٹ میں کیس بند کرنے کی سفارش کی گئی تھی جس کی حمایت ڈی پی جی اے نے بھی کی اور کہا تھا کہ 1985ء سے 1999ء تک کے کیش فلو چارٹ کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ملزم کی مجموعی آمدنی 6 کروڑ 7 لاکھ 65 ہزار 785 جبکہ اخراجات 2 کروڑ 23 لاکھ 56 ہزار 837 روپے تھے۔ لیکن اس رپورٹ کے باوجود یہ کیس نومبر 2013ء تک جوں کا توں رہا اور پراسیکوشن ڈویژن نے یہ سوال اٹھایا کہ سیاست دانوں کے مقدمات کے حوالے سے پالیسی کی وجہ سے کیس پر نیب کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں کوئی بحث نہیں ہوئی۔ بعد میں موجودہ نیب کی پالیسی کے مطابق یہ جائزہ لیا گیا کہ جو کیسز زیر التوا ہیں ان کا فیصلہ دستیاب شواہد کی بنیاد پر 31؍ دسمبر 2015ء تک کر لیا جائے گا۔ معاملے کا دوبارہ جائزہ لینے کے بعد نیب کے لاہور آفس نے 2015 میں سفارش کی کہ شواہد کی عدم دستیابی کی بنا پر کیس بند کر دیا جائے ۔ پراسیکوشن ڈویژن نے بھی نیب لاہور کی رائے کی توثیق کی۔ نیب کے اُس وقت کے چیئرمین نے 21 اگست 2015ء کو اس خواہش کا اظہار کیا کہ ملزم کی جائیداد اور بینک کے لین دین کی ایک مرتبہ پھر تصدیق کیلئے یو اے ای سفارت خانے سے آخری مرتبہ رابطہ کر لیا جائے تاکہ کیس کو حتمی شکل دی جا سکے۔ تاہم، بعد میں یہ کیس 31 اگست 2015ء کو قائم مقام چیئرمین کو پیش کیا گیا تو انہوں نے آئی سی ڈبلیو فائل کے پیرا نمبر 41؍ کی ہدایت نظر انداز کرتے ہوئے ہدایت کی کہ نیب کو اس شخص کا بیان درکار ہے جس کیخلاف تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ نیب لاہور کو ضروری اقدامات کی ہدایت کی گئی اور کہا گیا کہ کیس کو حتمی شکل دینے کیلئے تمام متعلقہ معلومات حاصل کی جائیں۔ قائم مقام چیئرمین کی ہدایت پر ڈار کا بیان لیا گیاجس میں انہوں نے کہا کہ ان کی یا ان کی اہلیہ کی پاکستان سے باہر کوئی جائیداد یا بینک اکائونٹ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے دونوں بیٹے پیشہ ورانہ شخصیات ہیں اور ان کے پاکستان میں کوئی کاروباری مفادات نہیں ہیں۔ ڈار کا کہنا تھا کہ ان کی غیر ملکی پیشہ ورانہ آمدنی سے آدھا حصہ انہوں نے اپنے بیٹوں کو تحفہ دیدیا تاکہ وہ کاروبار شروع کر سکیں اور اس کا اظہار الیکشن کمیشن آف پاکستان اور ٹیکس حکام کو جمع کرائی جانے والی دستاویزات میں بھی کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اس کیس پر نیب کی اعلیٰ سطح کی میٹنگ میں 14؍ اکتوبر 2015ء کو بحث ہوئی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ معاملہ نیب کے ایگزیکٹو بورڈ کو بھجوا دیا جائے۔ اسی دوران نیب لاہور نے فروری 2016ء میں ہر الزام کے پر ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ میں بتایاگ یا کہ ڈار کے قاضی فیملی کے ساتھ کاروباری تعلقات کے حوالے سے کوئی شواہد نہیں ملے۔ ڈار کے پاس برٹش ورجن آئی لینڈ میں بھی کوئی آف شور کمپنی نہیں۔ نیب لاہور کی رپورٹ کی توثیق آپریشنز ڈویژن نے اور پراسیکوشن ڈویژن نے کی جس کے بعد ای ایم بی نے جائزہ لیا جس کے بعد تقریباً 16؍ سال کے بعد یہ انکوائری بند کر دی گئی۔