مذہبی تنظیمیں عام طور پر اپنے مقلدین کو جذباتیت اور نعرے بازی سے مغلوب رکھتی ہیں۔ غور وفکر ،اجتہاد ،جدید سائنسی علوم کی طرف رُخ نہیں کرنے دیتیں مگرامام احمد رضاؒ کے ملفوظات اور تصانیف اس عہد کے افکار ونظریات کی خِرد افروزی کرتےہیں ،اور وہ سیاسی اصلاحات اور تحریکوں سے بھی اپنے عشاق کے ذہن کے دَر وا کرتے ہیں۔
وہ علوم جدید خاص کر سائنسی علوم پر بھی گہری نظر رکھتے تھے ،اسی لیے محسن پاکستان اکیسویں صدی کے ممتاز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی ان کی زندگی کے اس پہلو کو خراج عقیدت پیش کیا۔ ادارئہ تحقیقاتِ امام احمدر ضاکراچی لائق تحسین ہے کہ وہ سالہا سال سے اعلیٰ حضرت کے یوم وصال پر اس طرح کانفرنس کا انعقاد کرتا چلا آرہا ہے جس میں نہایت غیر جانبدار اہل دانش ،جج،وکلا ء،محققین، علماء ومشایخ، صاحبان علم وفن ،اہل سیاست اور حکومتی شخصیات علمی اور تحقیقی مقالات پیش کرتی ہیں ۔مجھے یہ سعادت نصیب ہورہی ہے اور میں نے جسارت کی ہے کہ” امام احمد رضا کی عشقِ رسولﷺ سے مہکتی قادرالکلامی “ کے حوالے سے کچھ عرض کرسکوں۔
امام احمد رضاؒ سراپاعشق ہیں، مکمل مدحت ہیں، ردیفیں اُن کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی رہتی ہیں، کیسی کیسی مشکل ردیفیں عقیدت میں ڈوبی ہوئی اور کیاکیامضامین نکلتے ہیں۔ شاعری کے لیے میرا انتخاب یوں بھی ہوا کہ آج سے ۵ سال قبل تُرکی میں مولانا جلال الدین رومی کے شہر قونیہ میں حاضر ی کا شرف حاصل ہوا۔ قونیہ کی سلجوق یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر ڈاکٹر رجب درگن سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بہت ہی گراں قدر تحفہ عنایت کیا،” حدائق بخشش کا ترکی میں ترجمہ“ یہ بہت ہی اہم کام ہے۔
ڈاکٹر رجب درگن کے ساتھ ساتھ حافظ عامرعلی بھی اس مقدس مشن میں شریک رہے ہیں۔ ترکی زبان میں حدائق بخشش کا ترجمہ” مغفرت بشرلی“، یعنی ”مغفرت کے باغات“ کیا گیا ہے، ان میں اعلیٰ حضرت کی ۱۰۳ نعتوں کے خوبصورت ترجمے کے ساتھ ساتھ رباعیات ،صلوٰۃ وسلام ، سلام رَضا، اور مناجات کو بھی ترکی زبان میں منتقل کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر رجب پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیں ، سلجوق یونیورسٹی میں اردو پڑھاتے ہیں،اردو کے مداح ہیں ، میری ادارئہ تحقیقات امام احمد رضا سے یہ استدعا ہوگی کہ انھیں کسی وقت پاکستان آنے کی دعوت دیں اور حدائق بخشش کے بارے میں ان سے سنیں، انھوں نے اس کے ترجمے کا فیصلہ کیوں کیا او اس میں کیا کیا مراحل پیش آئے۔؎
سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے
سونے والو! جاگتے رہیو چوروں کی رکھوالی ہے
اعلیٰ حضرت آج سے تقریباً ڈیڑ ھ سو سال پہلے یہ فرما رہے ہیں مگر یہ آج کے دور کے لیے بھی خبرداری ہے، سونے والے جاگتے رہیں ،کیونکہ چوروں کی رکھوالی ہے۔ یہ غزلِ مسلسل ہے، اسے ہم ایک نظم بھی کہہ سکتے ہیں ،یہ نہ صرف ایک عہد کی تصویر ہے، بلکہ اس عہد کے سماج، رہن سہن ،تضادات اور رجحانات کی جامع عکاسی ہے۔ یہ وہ دور ہے جب مسلمان انگریز کے خلاف جنگ آزادی میں مصروف ہیں، پورے ہندوستان میں لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھنے والے بر صغیر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک فرنگی سا مراج کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ ایک آواز آرہی ہے۔؎
آنکھ سے کاجل صاف چُرالیں یاں وہ چور بلا کے ہیں
تیری گھٹری تاکی ہے اور تو نے نیند نکالی ہے
زبان ملاحظہ کریں ،کتنی سادہ ہے او رسیدھی دل میں اُترنے والی ہے۔؎
یہ جو تجھ کو بلاتا ہے یہ ٹھگ ہے مار ہی رکھے گا
ہائے مسافر دَم میں نہ آنا مت کیسی متوالی ہے
اب بھی مسافروں کو راہزن ہی نہیں رہبر بھی لوٹ رہے ہیں، آج بھی اکثریت سوئی ہوئی ہے حالانکہ ہر لمحہ بیداری کا تقاضا کررہا ہے ۔صرف پاکستان ہی نہیں ساری اُمت مسلمہ میں یہی حال ہے اور یہی دور جو اعلیٰ حضرت کا دور ہے یہی الطاف حسین حالیؔ کاہے جب انھوں نے ملتِ اسلامیہ کو بیدار کرنے کے لیے مسدّس لکھی اور برصغیر کے مسلمانوں کو جگانے کی نتیجہ خیز کوشش کی ۔ اعلیٰ حضرت کایہ شعر ملاحظہ کیجیے۔؎
آنکھیں مَلنا، جھنجلا پڑنا، لاکھوں جماہی، انگڑاہی
نام پر اُٹھنے کے لڑتا ہے، اُٹھنا بھی کیا گالی ہے !
ہم پاکستان میں کیا کررہے ہیں ،بیدار ہوتے ہوتے پھر نیند میں غرق ہوجاتے ہیں، زمانہ قیامت کی چالیں چل رہا ہے۔
پاؤں اُٹھا اور ٹھوکر کھائی، کچھ سنبھلا پھر اوندھے منہ
مینہ نے پھسلن کردی ہے اور دھر تک کھائی نالی ہے
امام احمد رضا کے یہ اشعار،یہ صرف شاعری نہیں ہے، دل کا کرب ہے ،خون جگر ہے، لفظوں میں تصویر کشی ہے۔ اخبار ،ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا ہم جگہ جگہ ٹھوکریں کھا رہے ہیں، اوندھے منہ گر رہے ہیں، زبان پھسل رہی ہے۔ ؎
پھر پھر کر ہر جانب دیکھوں کوئی آس نا پاس کہیں
ہاں اِک ٹوٹی آس نے ہارے جی سے رفاقت پالی ہے
یہ ٹوٹی اُمید ہی ہے جس کے سہارے قو م اپنے پاؤں گھسیٹ رہی ہے۔ میں توجوں جوں ان اشعار سے گزر رہا تھا ،اعلیٰ حضرت کی قادر الکلامی اور الفاظ میں تصویر کشی پر عش عش کررہا تھا اور عالمِ تصور میں اس دور کے دہلی، لاہور، ملتان، کلکۃ ،لکھنؤ، میرٹھ کی حالت دیکھ رہا تھا ۔انتشاراور افراتفری اب بھی وہی ہے۔ ایک صاحبِ معرفت کی شاعری اور نثر کا کمال یہی ہوتا ہے کہ اس کے بیان میں دوام ہوتا ہے اور اس کی بصیرت صرف ایک مخصوص دور تک نہیں ہوتی وہ آنے والے زمانوں کا نقشہ بھی ترتیب دے رہا ہوتا ہے۔؎
دُنیا کو تو کیا جانے یہ بس کی گانٹھ ہے حرّافہ
صورت دیکھو ظالم کی تو کیسی بھولی بھالی ہے
شہد دکھائے زہر پلائے قاتل، ڈائن، شوہر کش
اِس مُراد پہ کیا للچایا دنیا دیکھی بھالی ہے
کتنے سادہ الفاط میں دنیا کی بے ثباتی،بے وقعتی اور دھوکے، فریب، انتقام کا احساس دلا رہے ہیں۔پھر اس نظم میں مناجات بھی ہیں۔؎
تم تو چاند عرب کے ہو پیارے تم تو عجم کے سورج ہو
دیکھو مجھ بے کس پر سب نے کیسی آفت ڈالی ہے
سب میں بے بسی ،چاند سورج،یعنی عقیدت کا بھی اہتمام اور شاعری کی صنعتِ تضاد کا خیال بھی ،مقطع میں خدائے بزرگ وبرتر سے رجوع ؎
مولیٰ! تیرے عفو و کرم ہوں میرے گواہ صفائی کے
ورنہ رضاؔ سے چور پہ تیری ڈگری تو اقبالی ہے
سبحان اللہ !
عفو وکرم صفائی کے گواہ۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو پھر دنیا کی امامت کا موقع عنایت کرے، ہمیں خوابِ غفلت سے جگائے ۔ اس غزل نے تو میرے قدم کئی برس تک روکے رکھے ۔”حدائق بخشش“ کے شعری سفر میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک خوشبو کی طرح مہکتا رہتا ہے اور آپ کے آس پاس سب مشکبار رہتے ہیں، شعریت بھی اور عقیدت بھی۔؎
سر تا باقدم ہے تنِ سلطانِ زمن پھول
لب پھول، دہن پھول، ذقن پھول، بدن پھول
کیا غازہ ملا گردِ مدینہ کا جو ہے آج
نکھرے ہوئے جوبن میں قیامت کی پھبن پھول
شاعری میں نغمگی اور غنائیت بھی جزولازم ہے پھر اپنی روایات ،اقدار، تلمیحات ،مذہبی اور تاریخی پس منظر سے اشعار قولِ فیصل ہوجاتے ہیں۔؎
اس میں زَم زَم ہے کہ تھم تھم اس میں جم جم ہے کہ بیش
کثرتِ کوثر میں زم زم کی طرح کم کم نہیں
یہ کلامِ بلاغت نظام توہر صفحے پر نظریں روک لیتا ہے، لکھتے جائیں، پڑھتے جائیں ،کتابیں تصنیف کریں وہ بھی کم ہیں ۔نظم معطر بھی ایک بہت گہرا تاثر عنایت کرنے والی تخلیق ہے جس میں ردیف” الف“ سے ردیف” ی“ تک اپنی عقیدتوں کا اظہار کیا گیا ہے۔ میں آخر میںاعلیٰ حضرت کی اس رباعی پر اپنی عرضداشت کا اختتام کروں گا ۔اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں؎
کس منہ سے کہوں رشکِ عنادل ہوں میں
شاعر ہوں فصیح بے مماثل ہوں میں
حقا کوئی صنعت نہیں آتی مجھ کو
ہاں یہ ہے کہ نقصان میں کامل ہوں میں