• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: رضیہ فرید

6 ستمبر، ہماری قومی اور عسکری تاریخ کا ایسا یادگار دن ہے ،جب غیور، متحد قوم نے دشمن کے سارے عزائم خاک میں ملا دیئے تھے۔1965کی پاک بھارت جنگ نے دنیا پر واضح کر دیا کہ جنگیں صرف مہلک ہتھیاروں اور بڑی فوجوں سے نہیں بلکہ قومی اتحاد، عزم و استقلال اور جزبے کے ساتھ جیتی جاتی ہیں۔اشاعت خصوصی میں 6ستمبر 1965ے حوالے سے معلوماتی مضامین ملاحظہ کریں۔

لبنیٰ ظہیر

6 ستمبر1965کو گزرے آج نصف صدی گزر چکی ہے۔ ہم جیسے بہت سے لوگوں نے وہ دن نہیں دیکھا۔ سترہ دنوں پر محیط وہ جنگ بھی نہیں دیکھی جو پاکستان پر مسلط کردی گئی تھی۔ 6ستمبر1965کو پیدا ہونے والے پاکستانی کی عمر آج انسٹھ برس ہو گئی ہے۔ یہ جنگ اپنے ہوش و حواس کے ساتھ دیکھنے والے پاکستانیوں کی عمریں اب ساٹھ سال سے زیادہ ہو چکی ہیں ۔ لیکن عجیب بات ہے کہ 6ستمبر1965کو وہ بھی نہیں بھولے جو اب بوڑھے ہوچکے ہیں اور انہیں بھی اس جنگ کے جوش و جذبے کا اندازہ ہے جنہوں نے 1965 کے بعد جنم لیا۔

یہ پاکستان کے دفاع کی ایسی جنگ تھی جو ہماری بہادر مسلح افواج نے ہی نہیں،بلکہ پاکستان کے ہر فرد نے لڑی۔ ہر مرد،ہر عورت، ہر جوان، ہر بوڑھے اور ہر بچے نے لڑی۔ کہا جاتا ہے کہ جنگیں فوجیں نہیں قومیں جیتا کرتی ہیں۔ ستمبر 1965کی پاک بھارت جنگ اس قول کا جیتا جاگتا ثبوت تھی۔ بھارت رقبے، آبادی اور وسائل کے لحاظ سے ہم سے کم از کم پانچ گنا بڑا ملک ہے۔ اس کی فوج کی تعداد بھی اسی تناسب سے ہے۔ 

اس کے پاس بری، بحری اور فضائی طاقت بھی ہم سے کئی گنا زیادہ ہے۔ آج سے انسٹھ سال پہلے طاقت کا توازن تو اور بھی کہیں زیادہ بھارت کے حق میں تھا۔ کاغذوں پر جمع تفریق کرنے والوں کے خیال میں پاکستان کا بھارت سے کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا۔ پھر یہ کہ بھارت نے اس جنگ میں پہل کی تھی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جنگ میں پہل کرنے والا آدھی جنگ ویسے ہی جیت جاتا ہے۔

اگرچہ مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین، بھارتی غاصب فوج سے لڑ رہے تھے، لیکن کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ بھارت کشمیری مجاہدین کی جدوجہد آزادی کو بہانہ بنا کر بین الاقوامی سرحد عبور کر کے پاکستان پر حملہ کردے گا۔ یہ حملہ بھارتی مسلح افواج نے بھرپور تیاری کے ساتھ کیا۔ بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری دھمکی دے چکے تھے کہ ہم اپنی پسند کے وقت اپنی مرضی کا محاذ کھولیں گے۔5اور 6ستمبر کی درمیانی شب جب بھارتی فوج واہگہ سے سرحد عبور کرکے اچانک پاکستان پر حملہ آور ہوئی تو اس کا خیال تھا کہ اگلے چند گھنٹوں میں پاکستان ڈھیر ہو جائے گا۔ 

زمینی حملے کے ساتھ ہی بھارتی ایئر فورس نے بھی پاکستان کے متعدد مقامات کو بم باری کا نشانہ بنایا۔ بھارتی جرنیل نے عالمی میڈیا سے کہا : ’’آج شام ہم لاہور کے جم خانہ کلب میں فتح کا جشن منائیں گے۔‘‘ لیکن پاکستان کے غازی اور شہباز بھی بے دار ہوچکے تھے۔ پھر تاریخ نےایسا منظر دیکھا جو کم کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ پوری پاکستانی قوم واقعی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہو گئی۔ 

وہ ٹیلی وژن کا دور نہ تھا، لیکن ریڈیو پاکستان نے اتنا اہم کردار ادا کیا کہ اسے برسوں یاد رکھا جائے گا۔ گلوکار، موسیقار، شاعر، سب خودبہ خود ریڈیو اسٹیشنز پہنچنے لگے اور پھر ایسے ایسے نغمے تخلیق ہوئے جنہوں نے مسلح افواج ہی نہیں عام پاکستانیوں کے دلوں کو بھی گرما دیا۔

پاکستان نے یہ جنگ اتنی بہادری اور ایسے عزم کے ساتھ لڑی کہ بھارت اپنے ناپاک قدم پاک سرزمین پر نہ رکھ سکا۔ بلکہ کئی مقامات پر اسے پس پا ہونا پڑا۔ سترہ دن اور سترہ راتوں تک جاری رہنے والی اس جنگ نے ساری دنیا کو بتادیا کہ پاکستان ناقابل تسخیر ہے۔ زمینی فوج کے ساتھ ساتھ ہماری چھوٹی سی ائیرفورس نے بھی بھارت کو شدید نقصان پہنچایا۔ ہماری بحریہ نے بھی بھارت کو پاکستان کے ساحلوں سے کوسوں دور رکھا۔ 

جب بھارت کو اندازہ ہو گیا کہ وہ اپنے عزائم میں کام یاب نہیں ہوسکتا اور اسے یہ بھی پتا چل گیا کہ جنگ پھیل گئی تو اسے کہیں زیادہ نقصان ہو گا تو اس نے اپنے دوست اور سرپرست ملک، روس کے ذریعے جنگ بندی کرائی اور پھر روس کے شہر تاشقند میں پاکستان کے صدر جنرل ایوب خان اور بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری کے درمیان معاہدہ تاشقند پر دست خط ہوئے۔ اُسی رات بھارتی وزیراعظم حرکت قلب بند ہونے سے آنجہانی ہوگئے۔

پوری پاکستانی قوم،آج یوم دفاع پاکستان کی انسٹھویں سال گرہ منا رہی ہے۔ آج وہی نغمے فضائوں میں گونج رہے ہیں۔ شجاعت و بہادری کی وہی کہانیاں سنائی دے رہی ہیں۔ بے شک پاکستانی قوم کو فخر ہونا چاہیے کہ اس نے بہت کم وسائل کے باوجود جذبۂ ایمانی کے ذریعے اپنے سے کئی گُنا بڑے دشمن کے ناپاک ارادے خاک میں ملا دیے۔ 

انانسٹھ برسوں میںسقوطِ ڈھاکاکا المیہ بھی پیش آیا۔بہ ظاہر بھارت دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے مشرقی پاکستان میں ہماری فوج کو شکست دی اور بنگلا دیش بنایا، لیکن ساری دنیا جانتی ہے کہ سقوطِ ڈھاکاکے اسباب کچھ اور تھے۔ نہ ہماری فوج جنگی ساز و سامان کے ساتھ وہاں موجود تھی اور نہ ہی باضابطہ طور پر کوئی جنگ ہوئی۔ انتہائی مشکل حالات میں ہمارے مٹھی بھر فوجیوں نے جو کارنامے سر انجام دیے وہ تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔

مئی 1998کے آغاز میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کر کے اعلان کیا کہ اب وہ ایک ایٹمی ملک بن گیا ہے۔ اس کے ساتھ بھارتی وزیر پاکستان کو خوف ناک نتائج کی دھمکیاں دینے لگے۔ لیکن دو ہفتوں بعد 28مئی کو پاکستان نے چھ ایٹمی دھماکے کر کے اسی زبان میں جواب دے دیا۔ 

اُس وقت کے وزیراعظم، نواز شریف کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔ کئی طرح کے لالچ بھی دیے گئے، لیکن انہوں نے وہی کیا جو پاکستان کے مفاد میں تھا۔ آج یہ ثابت ہو چکا ہے کہ پاکستان ایٹمی طاقت نہ بنتا تو شاید بھارتی بالادستی قبول کر لینے کے سوا اس کے پاس کوئی راستہ نہ ہوتا۔

بھارت اب بھی جارحیت کے راستے پر چل رہا ہے لیکن اُسے معلوم ہے کہ اگر اس نے کوئی شرارت کی تو اس کے کیا نتائج نکلیں گے۔ پاکستان یقیناً امن چاہتا ہے۔ ہماری حکومت کی توجہ دہشت گردی کے خاتمے، توانائی کے بحران اور معیشت کے استحکام جیسے منصوبوں پر ہے۔ 

یہ سب کچھ بھی دفاعِ وطن کا حصہ ہے۔ پاکستان تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرتا آیاہے۔ لیکن بھارت کو معلوم ہونا چاہیےکہ یہ پاکستان، اللہ کے فضل و کرم سے انسٹھ برس پہلے والے پاکستان سے کہیں زیادہ مضبوط ہے اور یہاں بسنے والے تیئس کروڑ انسان آج بھی دفاع وطن کا وہی جذبہ رکھتے ہیں جس کا مظاہرہ قوم نے انسٹھ برس پہلے کیا تھا۔