مرزا غالب کا کھلا خط ، بجلی کے بلوں پر
سنو میرن ! یہ برق جو ہم پر گر رہی ہے کیا تم پر بھی گری ہے یا اکبر آباد والے اس سے مستثنیٰ ہیں ؟ یہاں تو ہر گھر کا یہ قصہ اور ہر کوچے کی یہ فریاد ہے کہ آمدن سے زیادہ تو محکمہ برقیات نے واجبات لگا دیے ہیں۔ اُپلے اور اناج پر تو پہلے ہی محصول لگ چکا تھا ، اب تو ناکردہ گناہوں پر بھی لگ گیا ہے ۔ ایک حشر بپا ہے ، کوچہ و بازار میں مُنادیاں ہو رہی ہیں ، واجبات کی رسیدوں کو آگ لگائی جا رہی ہے اور در پہ آئے منشئ حساب کی درگت بنائی جا رہی ہے ۔
میاں ! تم ہی انصاف کرو ، گھر میں ایک پنکھا ہے وہ بھی بند رہتا ہے ، ایک موٹر ہے مہینے بھر سے خراب پڑی ہے ، ٹھنڈے پانی سے مجھے بَیر ہے ، لباس کی سِلوَٹیں کوئلے کی استری نکالتی ہے ۔ اس سب کے باوصف ہَمِیں قیدِ بامشقت کے مجرم ٹھہرے ؟؟؟
امروز بھادوں کی اثنا عشری ہے ۔ میں تاریک کوٹھڑی میں بیٹھا بتی گُل کیے منتظر ہوں کہ چہار روز باقی ہیں پھر مہینے بھر کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں ہو گا یا بائیں۔۔۔۔۔ تم جانو یہ سارے مناظر قیامت کے ہیں ۔ہر نیا محصول صورِ اسرافیل ہے ، در پہ آیا حساب کا منشی دجال ہے ، دریں اثنا پل صراط سے گزر رہا ہوں ۔۔۔۔شیطانوں نے یہاں تک پہنچا دیا ہے ۔
(پروفیسر مدثر حسین شاداب )