سرور بارہ بنکوی
نہ کسی کو فکر منزل نہ کہیں سراغ جادہ
نہ کسی کو فکر منزل نہ کہیں سراغ جادہ
یہ عجیب کارواں ہے جو رواں ہے بے ارادہ
یہی لوگ ہیں ازل سے جو فریب دے رہے ہیں
کبھی ڈال کر نقابیں کبھی اوڑھ کر لبادہ
میرے روز و شب یہی ہیں کہ مجھی تک آ رہی ہیں
تیرے حسن کی ضیائیں کبھی کم کبھی زیادہ
سر انجمن تغافل کا صلہ بھی دے گئی ہے
وہ نگہ جو درحقیقت تھی نگاہ سے زیادہ
ہو برائے شام ہجراں لب ناز سے فروزاں
کوئی ایک شمع پیماں کوئی اک چراغ وعدہ
……٭…٭…٭……
میں اک حسیں خواب دیکھتا ہوں
میں دیکھتا ہوں
وہ کشت ویراں
کہ سالہا سال سے
جو ابر کو بھی ترس رہی تھی
وہ کشت ویراں
کہ جس کے لب خشک ہو چکے تھے
جو ابر نیساں کی منتظر تھی
جو کتنی صدیوں سے
باد و باراں کی منتظر تھی
میں دیکھتا ہوں
اس اپنی مغموم کشت ویراں پہ
کچھ گھٹا نہیں
جو آج لہرا کے چھا گئی ہیں
یہ سرد ہوا کے جھونکے
نہ رک سکے جو کسی کے روکے
ذرا تمازت جو کم ہوئی ہے
حیات کچھ محترم ہوئی ہے
میں اک حسیں خواب دیکھتا ہوں
میں دیکھتا ہوں
کہ جیسے شب کی سیاہ چادر
سمٹ رہی ہے
وہ تیرگی
ہم جسے مقدر سمجھ چکے تھے
وہ چھٹ رہی ہے
میں دیکھتا ہوں
کہ صبح فردا
ہزار رعنائیاں جلو میں
لیے مسکرا رہی ہے
میں دیکھتا ہوں
جبیں افق کی جو نور فردا سے ہے منور
سحر کا پیغام دے رہی ہے
جو روشنی کا
جو زندگی کا
ہر اک کو انعام دے رہی ہے
……٭…٭…٭……
حال میں اپنے مگن ہو فکر آئندہ نہ ہو
یہ اسی انسان سے ممکن ہے جو زندہ نہ ہو
کم سے کم حرف تمنا کی سزا اتنی تو دے
جرأت جرم سخن بھی مجھ کو آئندہ نہ ہو
بے گناہی جرم تھا اپنا سو اس کوشش میں ہوں
سرخ رو میں بھی رہوں قاتل بھی شرمندہ نہ ہو
ظلمتوں کی مدح خوانی اور اس انداز سے
یہ کسی پروردۂ شب کا نمائندہ نہ ہو
میں بہر صورت ترا کرب تغافل سہہ گیا
اب مجھے اس کا صلہ دے صرف شرمندہ نہ ہو
زندگی تشنہ بھی ہے بے رنگ بھی لیکن سرورؔ
جب تلک چہرہ فروغ مے سے تابندہ نہ ہو