• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعلیمی ادارے کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور اگر اس ریڑھ کی ہڈی میں جھکاؤ یا خرابی پیدا ہو جائے تو گویا ملکی ترقی کی بنیاد ہی ٹیڑھی اور کمزور ہو جاتی ہے۔ اسی طرح تعلیمی ادارے ہر فرد کو ملک کا کارآمد شہری بنانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ معیاری نظام تعلیم ہی نہ صرف اچھا شہری بناتا ہے بلکہ ایک اچھے معاشرے کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں دی جانیوالی تعلیم پر ہی ملک کی تعمیر و ترقی کا انحصار ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں تعلیم کا گرتا ہوا معیار، تعلیمی اداروں میں سیاست، اساتذہ کی ناقص کارکردگی، فرائض سے غفلت، ناقص طریقہ تعلیم، کمزور ذریعہ تعلیم اور تربیت یافتہ اساتذہ کے نہ ہونے سے ایک سنگین تعلیمی بحران ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ اسی طرح حکومت کی ترجیحات میں تعلیم کا آخری ترجیحات میں ہونا، اسٹاف کی مناسب نگرانی نہ ہونا، تعلیمی اداروں میں بدعنوانی، تعلیمی نظام کی عدم یکسانیت، تعلیمی اداروں کو مناسب فنڈز کی عدم فراہمی، غیرمعیاری نصاب، اساتذہ اور طلباء کے درمیان عدم رابطہ، اساتذہ اور والدین کے مابین فاصلے کی وجہ سے بھی ایک بڑا تعلیمی بحران سر پہ کھڑا ہے۔ حکومت کے زیرانتظام تعلیمی اداروں کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ہمارا تعلیمی نظام رنگ نسل ذات پات میں بٹ چکا ہے جو تعلیمی اداروں کے معیار کو بری طرح گرا رہا ہے۔ ناقص پالیسیوں اور غلط سرگرمیوں کی وجہ سے تعلیمی اداروں کی کارکردگی دن بدن گرتی جا رہی ہے۔ تعلیمی اداروں کے بحران کی ایک بڑی وجہ اساتذہ سے غیرتعلیمی کام لینا ہے۔ پولیو کے قطرے پلانے ہوں، مردم شماری ہو یا الیکشن، صدر وزیر اعظم، وزرا کے سرکاری جلسوں کی رونق دوبالا کرنی ہو، شجرکاری مہم کا مرحلہ ہو یا ڈینگی کیخلاف جہاد، صاف ستھرا پنجاب قسم کی اسکیمیں ہو ںیا کوئی بھی قومی سیاسی اور نجی نوعیت کی سرگرمی، تعلیمی اداروں کے اساتذہ کرام ہی اپنی تعلیمی سرگرمیاں چھوڑ کر ان ڈیوٹیوں میں مشغول ہوتے ہیں بعد میں انتہائی ذلت کیساتھ انہیں معمولی معاوضہ دیا جاتا ہے اور بعض اوقات تو اساتذہ کرام کو معاوضوں کی ادائیگی کیلئے کئی کئی سال انتظار کرنا پڑتا ہے جوکہ انتہائی شرمناک ہے۔ ٹرانسفر پوسٹنگ کی غیرمنصفانہ پالیسیاں بھی تعلیمی اداروں اور اساتذہ کی کارکردگی پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد واجبات کی وصولی کیلئے آگ کا دریا عبور کرنا پڑتا ہے اور حق حلال کی کمائی سے رشوت دیکر اپنا جائز حق حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کرنا پڑتی ہے لیکن میرا آج کا موضوع ان امور کے علاوہ ایک اور سنگین بحران پر بات کرنا ہے۔ وفاقی وزارت تعلیم کے ذیلی ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن کی جانب سے جاری کردہ تعلیمی شعبے کی کارکردگی رپورٹ میں ہوشربا انکشافات نے تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پانچ سے 16 سال کی عمر کے بچوں کی تعداد 71ملین ہے ایک اندازے کے مطابق ان میں سے 36ملین بچے اسکول سے باہر ہیں اسکول نہ جانیوالے بچوں میں 53فیصد لڑکیاں اور 47فیصد لڑکے ہیں۔ اسی رپورٹ میں جاری کی گئی ایک تحقیق کے مطابق پانچ سے نو سال کی عمر کے 51فیصد بچے اسکول نہیں جاتے۔21فیصد بچے ایسے ہیں جنہوں نے تعلیم چھوڑ دی ہے جبکہ 79فیصد بچوں نےکبھی اسکول میں داخلہ ہی نہیں لیا۔ پاکستان کے اسکولوں سے باہر رہنے والے بچوں کا تعلق تمام صوبوں سے ہے۔ لیکن جن تحصیلوں میں صورتحال تشویشناک ہے انکی تعداد 45 ہے۔ ان میں سے 30 تحصیلیں پنجاب 12 تحصیلیں سندھ اور دو تحصیلیں خیبرپختونخوا اور ایک تحصیل صوبہ بلوچستان کی ہے۔ صوبہ بلوچستان میں ایک تحصیل ایسی ہے کہ جہاں پر 92فیصد بچے اسکولوں سے باہر ہیں اسی طرح صوبہ خیبرپختونخوا میں ایک تحصیل ایسی ہے کہ جسکے 91فیصد بچوں نے آج تک اسکول کی شکل نہیں دیکھی۔ اسکول نہ جانیوالے بچوں کی تعداد میں 11.73ملین پنجاب میں،7.63ملین سندھ میں 3.63ملین خیبرپختونخوا میں،3.13 ملین بلوچستان میں جبکہ اسلام آباد میں اسکول نہ جانیوالے بچوں کی تعداد0.08 ملین ہے۔ اگرچہ 2016ء اسکول نہ جانیوالے بچوں کی تعداد 44 فیصد تھی جو اب کم ہوئی ہے لیکن یہ شرح بھی سنگین ہے۔ پاکستان میں اس وقت تین لاکھ تیرہ ہزار چار سو اٹھارہ سرکاری اور نجی اسکول ہیں۔سرکاری شعبے میں کام کرنیوالے اسکولز کی کل تعداد 227506ہے یہاں پر 42576130 بچے زیر تعلیم ہیں۔وزارت تعلیم کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق ملک میں 39بچوں کیلئے ایک استاذ دستیاب ہے۔ جو کہ بین الاقوامی معیار سے کہیں کم ہے۔ اسکولوں میں سہولیات کا فقدان ایک الگ موضوع ہے تعلیم پر ٹوٹل جی ڈی پی کا محض 1.7فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔ ان سرکاری اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے ملک میں جاری سیاسی اخلاقی اور سماجی بحران کی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ تمام مسائل کا حل جن تعلیمی اداروں سے نکلنا تھا وہ تعلیمی ادارے بذات خود بحران سے دوچار ہیں۔ جس نوجوان نسل نے پاکستان کیلئے امید کی کرن بننا تھا وہ نسل اسکول کے راستے سے انجان ہے اور جو اسکول جا رہے ہیں وہ ناقص تعلیم کی بدولت ہر قسم کے معاشی سیاسی اور سماجی شعور سے محروم ہیں۔ ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ پاکستان کو درپیش تمام چیلنجز کی روک تھام علم سے ہی ممکن ہوسکے گی۔ جب تک یہ بات یقینی نہیں بنائی جائیگی کہ پاکستان کا کوئی بچہ اسکول سے باہر نہ ہو تب تک یہ ہمہ گیر بحران پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھے گا۔

تازہ ترین