ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں، ہمارے راہ نمائوں کے بیانات دل پذ یر ہیں، اماموں کے خطبے پُرسوز ہیں، صحافیوں کے ’اصولی موقف‘ متاثر کُن ہیں، سورمائوں کے دعوے پر جوش ہیں اور جج حضرات کی باتیں تو بہت ہی پیاری ہیں۔ لیکن ان اصحاب کا عمل دیکھ کر بندہ متفکر ہو جاتا ہے کہ یہ منافق ہیں، دروغی ہیں، یا سرتاپا فراڈیے۔ یہ مرض ہر معاشرے میں تھوڑا بہت پایا جاتا ہے، مگر ہم نے اس ’فن‘ کو بامِ ثریا تک پہنچا دیا ہے، ہم اسے روزمرہ سمجھ کر قبول کر چکے ہیں، قول و فعل کے اس تصادم کا ہم قطعاً بُرا بھی نہیں مناتے، اگر منافق یا جھوٹا یا بد کردار شخص، ہمارے سیاسی یا دینی مسلک کا داعی ہے تو بس وہ ہمیں عزیز ہے، باقی ہر بات غیر اہم قرار پاتی ہے۔ ہمارا منافق...زندہ باد، ہمارا جھوٹا ...پائندہ باد۔
جمہوریت کی موجودہ جنگ کے ہراول دستے میں شامل اکثر صحافی و تجزیہ نگار ہمارے دیکھے بھالے ہیں، یہ کمپنی پاشا، ظہیرالسلام اور فیض حمید صاحبان نے بھرتی کی تھی، مختلف ٹی وی چینلز کے مورچوں پر انہیں تعینات کیا گیا، سچی جھوٹی فائلوں سے مسلح کیا گیا، اور جمہوری نظام پر حملہ آور ہونے کیلئے گرج دار آواز میں آرڈر دیا گیا...فائر! صحافی نما حضرات نے حکم کی بجا آوری کی اور فائر کھول دیا، جمہوری نظام کے جسد کی پور پور چھلنی کر دی گئی، ہر طرف دھواں پھیل گیا، اس دھویں سے جادوئی طور پر ہائی برڈ نظام کا جِن برآمد ہوا، رنگروٹ صحافیوں نے نعرہ بلند کیا کہ بے شک جادو برحق ہے۔ سیم پیج کے رنگروٹوں نے 2018ءکے الیکشن کو شفاف اور اپوزیشن راہ نمائوں کو جیلوں میں بند کرنے کو قانون کی فتح قرار دیا۔ سیم پیج پھٹا تو رنگروٹوں نے کہا ہم تو خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کارروائی کر رہے تھے، ہمیں تو کرپشن کی فائلیں دکھائی گئی تھیں، اب ہم تحویلِ قبلہ کیسے کریں، پھر فیض حمید اینڈ کمپنی نے رنگروٹوں کو بتایا کہ انقلاب آ رہا ہے، فوج کے ادارے اور قیادت کے خلاف زہر اگلتے رہو۔ سوشل میڈیا پر عمران خان کی حمایت کرنے والوں پر کروڑوں روپے برس رہے تھے، رنگروٹوں کو سمجھ آ گئی انہیں کس مورچے پر ڈیوٹی دینی ہے۔ یہ ’جمہوریت‘ کے حالیہ مجاہدین کا حلیہ ہے، انہیں پہچاننے میں دھوکا نہ کھائیے۔ کون سی جمہوریت، کہاں کی جمہوریت۔ یہ جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں۔ خدا جانے یہ منافق ہیں، جھوٹے ہیں یا فقط حریص۔ ایک سابق بیوروکریٹ اور حالیہ صحافی آج کل گرفتار ہیں، ان صاحب کو خوابوں میں برگزیدہ ہستیوں کی زیارت ہوتی ہی رہتی ہے، بشارتوں کا سلسلہ چلتا ہی رہتا ہے، غزوہِ ہند کے فرضی مجاہد ہیں اور مذہب کے لبادے میں ٹخنوں تک لپٹے ہوئے ہیں۔ ان صاحب کے فون سے محافلِ شراب و شباب کی جو ویڈیوز مبینہ طور پر برآمد ہوئی ہیں ان میں وہ خود میرِ محفل بنے بیٹھے ہیں۔ بشری کوتاہیاں تو درگزر کی جا سکتی ہیں، مگر کیا اس ہمالیائی منافقت سے بھی صرفِ نظر کرنا چاہیے؟ بہرحال، کچھ دن میں دیکھیے گا یہ صاحب باہر آئیں گے، ایک سیاسی جماعت کی حمایت کا نعرہ لگائیں گے، اور لاکھوں لوگوں کی آنکھ کا تارا بن جائیں گے۔ ہمارا منافق...زندہ باد! ہمارا جھوٹا...پائندہ باد! کچھ لوگ خود کو جمہوریت کا Logo سمجھتے ہیں، مگر بہ ضد ہیں کہ بات جب بھی کریں گے فوج سے کریں گے، کچھ لوگ ووٹ کو عزت دیتے دیتے تعظیمِ کفش کے قائل ہوگئے، کچھ لوگ سوتے جاگتے سیاست کرتے ہیں مگر پورے اعتماد سے فرماتے ہیں کہ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ سارے کا سارا منظر نامہ ہی منافقت کے رنگ میں رنگا ہوا، ہر طرف ایک ہی ڈھٹائی۔ ایسے میں اگر کوئی ایسا شخص نظر آ جائے جو ریوڑ سے ہٹ کر اکیلا ہی چلا جا رہا ہو تو کیسی خوش گوار حیرت کا سامنا ہو گا۔
چیف جسٹس بننے سے پہلے قاضی فائز عیسیٰ جب فرماتے تھے کہ سپریم کورٹ کے بنچ بنانے کا اور کیس لگانے کا اختیار اکیلے چیف جسٹس کے پاس نہیں ہونا چاہیے، اور یہ کہ آئینی سوالوں پر فل کورٹ بیٹھنا چاہیے ، تو ہم سوچتے تھے یہ صاحب باتیں تو بہت اچھی کر رہے ہیں مگر چیف جسٹس بننے کے بعد جب بے پناہ طاقت مل جاتی ہے تو ایسی اصولی باتیں کہاں یاد رہتی ہیں۔ حیرت ہوئی جب قاضی صاحب نے واقعی وہ سب کر دیا جو وہ کہتے تھے۔ہمارے ماحول میں قول و فعل کی یہ ہم آہنگی باعثِ حیرت ہے، ورنہ عہدوں پر براجمان ہونے کے بعد عقل کی عیاریاں سوا ہو جاتی ہیں، سو دلیلیں سوجھتی ہیں، اور نئے حالات کے تقاضے قسمیں وعدے توڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ مگرفائز عیسیٰ کسی سچے عاشق کی طرح اپنی قسمیں پوری کر رہے ہیں، اپنے وعدے نبھا رہے ہیں۔ تازہ خبر آئی ہے کہ جب حکومت نے ان سے ججوں کی تعداد بڑھانے کی نسبت سے مشورہ کیا تو قاضی صاحب فرماتے ہیں کہ پہلے سترہ تو پورے کر لیں۔
یہ سچ ہے کہ بااصول آدمی ہمارے ماحول میں پیوند کی طرح نظر آتا ہے، اس سے کوئی خوش نہیں ہوتا۔ پی ٹی آئی کی نظر میں تو فائز عیسیٰ باقاعدہ ولن ہیں، دوسری طرف حکومت بھی سمجھتی ہے کہ قاضی صاحب نے اپنے اختیارات کمیٹی میں بانٹنے میں جلدی کی، جس کی وجہ سے ان کے دور میں بھی اہم فیصلے ناروا عمران خان کے حق میں آتے رہے۔ اب قصہ کچھ یوں ہے کہ عمران خان اگلے چیف جسٹس سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں، انہیں توقع ہے کہ اگلے چیف صاحب اس حکومت کا کریا کرم کر دیں گے، عمران خان نے یہ توقعات جس بنیاد پر باندھی ہیں، حکومت بھی ان سے آگاہ نظر آتی ہے۔چیف جسٹس کی معیاد سے متعلق متوقع آئینی ترمیم کو ہم اسی پس منظر میں دیکھ رہے ہیں۔
متوازن جج (اور متوازن صحافی) آئوٹ آف فیشن ہو چکے ہیں، لہٰذا چلتے چلتے ’’اپنے اپنے‘‘ جج کے حق میں ایک نعرہء مستانہ لگاتے جائیے، زندہ باد...پائندہ باد!