• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جدید تحقیق پرانے لوگوں کی یہ بات سائنسی انداز میں ثابت کرچکی ہے کہ جسمانی صحت و تن درستی ، خوشی اور راحت کی کیفیت کا دارومدار ذ ہنی صحت پر ہوتا ہے۔ اگر انسان کسی وجہ سے ذہنی طورپر صحت مند نہ ہو تو اس کے اثرات پورے بدن پر مرتب ہوتے ہیں ،کیوں کہ دماغ ہی انسان کے سارے جسمانی نظام کو کنٹرول کرتا ہے۔ دماغی کم زوری یا بیماری کے سبب ہی بہت سی اعصابی، نفسیاتی اور جسمانی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کےدوبرس قبل کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً پچاس کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں، جس میں سب سے زیادہ پائی جانے والی دماغی بیماریاں ڈیپریشن اور شیزو فرینیا ہیں۔ اور دنیا بھر میں ہر سال ذہنی امراض میں مبتلا آٹھ لاکھ افراد اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔ 

اس کے باوجود دنیا بھر میں ذہنی بیماریوں کے علاج معالجے پر بہت کم رقم خرچ کی جاتی ہے ۔ پاکستان ایسوسی ایشن آف مینٹل ہیلتھ کےدوبرس قبل کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً 15 لاکھ افراد ذہنی امراض کے مسائل سے دو چار ہیں ،لیکن ملک میں صحت کے لیے مختص کیے گئے بجٹ میں سے صرف دوفی صد دماغی امراض کے علاج کے لیے خرچ کیا جاتا ہے۔تاہم تازہ اعداوشمار کے مطابق ملک میں آٹھ کروڑ سے زائد افراد نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔

رواں ماہ کی چھ تاریخ کو یہ انکشاف وزارت صحت کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کئے گئے اعدادوشمار میں کیا گیا۔ وزارت صحت کے مطابق پاکستان میں ذہنی امراض میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے اورملک کے تمام بڑے اسپتالوں نفسیاتی علاج کی سہولیات موجود ہیں۔ 126 میڈیکل کالجز میں ذہنی امراض اور شعبہ نفسیات کام کر رہے ہیں ۔

اس سے قبل 2021ء میں وزارت قومی صحت نے ایک رپورٹ پارلیمنٹ میں جمع کروائی تھی جس کے مطابق، پاکستان میں ذہنی امراض کی سالانہ شرح 12.7 فی صد ریکارڈ کی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں ڈپریشن کی سالانہ شرح 3.23 فی صد اور اینزائٹی ڈس آرڈر کی شرح 3.17 فی صدبتائی گئی تھی۔اس کے علاوہ 2021ء میں ہمارے ملک میں شیزوفرینیا کے مریضوں کی سالانہ شرح 0.24 فیصد ریکارڈ بیان کی گئی تھی۔

دوسری جانب یہ تعخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں 1998ء کے بعد سے نیشنل ہیلتھ سروے نہیں ہوسکا ہے جس کی وجہ سے محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان میں نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا افراد کی تعداد بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق صحت مند ذہن کسی بھی معاشرے کی سماجی، سائنسی اور معاشی ترقی کی ضمانت ہوتا ہے۔پاکستان میں ذہنی امراض طبیبوں کے لیے طویل عرصے سے چیلنج بنے ہوئے ہیں، لیکن ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں سخت اقتصادی حالات، سیاسی عدم استحکام، امن و امان کی صورتِ حال اورمختلف سماجی و معاشرتی مسائل کی وجہ سے پاکستان میں دماغی اور نفسیاتی مسائل اور مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بنیادی طورپر عدم تحفظ کی عمومی صورت حال سے لوگوں کی ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس میں صرف دہشت گردی کے واقعات کا عمل دخل نہیں ہے بلکہ عدم تحفظ، غربت، آبادی میں اضافہ اور بنیادی ضروریات کے مسائل سمیت بہت ساری وجوہات ہیں جن کا ذہنی صحت پر بڑا گہرا اثر پڑتا ہے۔

ہوش ربا منہگائی، بنیادی سہولتوں کے فقدان اور سیاسی بحران کی وجہ سے لوگوں میں مایوسی اور ذہنی دباؤ کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ لیکن ہر نفسیاتی مرض کے علاج کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری نہیں ہوتا، بلکہ کھانے پینے کی عادات میں تبدیلی، ورزش کو معمول بنانے اور اپنے وسائل میں رہتے ہوئے زندگی گزارنے سے ذہنی صحت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں تیزی سے پھیلتے دماغی امراض

عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر چار میں سے ایک شخص کو کسی نا کسی مرحلے پر ذہنی علاج درکار ہے،لیکن نفسیاتی مسائل کے شکار افراد کا 85فی صد متعلقہ طبی سہولتوں سے محروم ہے۔ ادارے کے مطابق دنیا بھر میں تقریبا ایک ارب افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے کا شکار ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مختلف دماغی امراض میں سب سے عام امراض ڈپریشن اور اینزائٹی ہیں جو بہت سی دیگر بیماریوں کا بھی سبب بنتے ہیں اور ہر سال عالمی معیشت کو ان دو امراض کی وجہ سے صحت کے شعبے میں ایک کھرب ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق دماغی امراض کی سب سے عام قسم ڈپریشن، دنیا بھر میں تیس کروڑ افراد کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ اس مرض کے علاوہ بھی ذہنی امراض کی کئی اقسام ہیں جو تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں بھی پانچ کروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں بالغ افراد کی تعداد ڈیڑھ سے ساڑھےتین کروڑ کے قریب ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہم میں سے ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔

ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کچھ عام ذہنی امراض ہیں جو تیزی کے ساتھ ہمیں اپنا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان میں سے پانچ سرِ فہرست امراض یہ ہیں:

ڈپریشن

یہ ایک ایسا مرض ہے جو ابتدا میں مزاج میں غیر متوقع تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ بعد ازاں یہ جسمانی و ذہنی طور پر شدید طور پر متاثر کرتا ہے۔

علامات

ڈپریشن کی عام علامات یہ ہیں:

مزاج میں تبدیلی ہونا، جیسے اداسی، مایوسی، غصہ، چڑچڑاہٹ، بے زاری، عدم توجہی وغیرہ۔

منفی خیالات کا دماغ پر حاوی ہوجانا۔

ڈپریشن شدید ہونے کی صورت میں خودکشی کے خیالات بھی آنے لگتے ہیں اور مریض اپنی زندگی ختم کرنے کے بارے میں سوچتا ہے۔

ماہرین کے مطابق مزاج میں تبدیلیاں لانے والے ایک اور مرض، بائی پولر ڈس آرڈر، کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

شیزوفیرنیا

شیزوفرینیا کے مریض کو غیبی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ مریض کو کچھ ایسی غیبی آوازیں آتی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور وہ ان آوازوں کو حقیقت سمجھ کر ان پر ردعمل دیتا ہے۔ یہ مریض کے لیے بہت تکلیف دہ ہوتا ہے، کیوں کہ ایسی آوازیں زیادہ تر منفی ہوتی ہیں۔ 

ایسے میں مریض ان آوازوں سے باتیں کرنے لگتا ہے، وہ کبھی انہیں خاموش ہونے کا کہتا ہے، کبھی چیخنے لگتا ہے اور وہ اپنے معمولاتِ زندگی سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسے افراد کے بارے میں لوگ عام طورپر یہ مشہور کردیتے ہیں کہ اس پر کسی غیر مرئی مخلوق کا سایہ ہے یا اس پر کوئی جن یا چڑیل قابض ہوگئی ہے۔

آہستہ آہستہ ایسا مریض تنہائی کا شکار ہوتاچلا جاتا ہے اور خود پر توجہ دینا چھوڑ دیتا ہے۔ وہ اپنی صحت یا پھر صفائی کا خیال رکھنا بھی چھوڑ دیتا ہے۔ حتیٰ کہ جب یہ بیماری بڑھ جاتی ہے تو مریض کو اپنے ارد گرد کے ماحول کا بھی ہوش نہیں رہتا کہ میں کس سے بات کررہا ہوں، کہاں ہوں اور میرے ساتھ کون ہے۔ یہ سنگین بیماری ہے۔ عام الفاظ میں بتایا جائے تو یہ سب سے خطرناک نفسیاتی عارضہ ہے، جسے شیزو فرینیا کہتے ہیں۔

اینزائٹی یا پینک

اینزائٹی یعنی اضطراب یابے چینی اور پینک یعنی جلد بازی یا کسی بات کا خوف، اس وقت ذہنی امراض کی فہرست میں ڈپریشن کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔ اس ڈس آرڈر کا تعلق ڈپریشن سے بھی جڑا ہوا ہے اور یہ یا تو ڈپریشن کے باعث پیدا ہوتا ہے، یا پھر ڈپریشن کو جنم دیتا ہے۔

علامات

بغیر کسی سبب کے گھبراہٹ ،بے چینی اورخوف۔

کسی بھی قسم کا شدید خوف۔

خوف کے باعث ٹھنڈے پسینے آنا، دل کی دھڑکن بڑھ جانا، چکر آنا وغیرہ۔

بغیر کسی طبی وجہ کے درد یا الرجی ہونا۔

ماہرین کے بہ قول ،اینزائٹی بعض اوقات شدید قسم کے منفی خیالات کے باعث بھی پیدا ہوتی ہے اور منفی خیالات آنا بہ ذاتِ خود ایک ذہنی پے چیدگی ہے۔

کنورژن ڈس آرڈر

اس قسم کے ذہنی خلل میں مختلف طبی مسائل نہایت شدید معلوم ہوتے ہیں۔مثلااگرکسی کے پاؤں میں چوٹ لگی ہے تووہ سمجھے گا کہ یہ چوٹ بہت شدید ہے اور اس کی وجہ سے اس کا پاؤں مفلوج ہوگیا ہے۔ پھر یہ سوچ اس قدر حاوی ہوجائے گی کہ جب وہ شخص اپنا پاؤں اٹھانے کی کوشش کرے گاتو وہ اس کوشش میں ناکام ہوجائے گا اور پاؤں کو حرکت نہیں دے سکےگا ،کیوں کہ اس کا دماغ اس خلل کی وجہ سے ایسا کرنے کا حکم نہیں دے گا۔

لیکن جب وہ شخص ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو اسے علم ہوتا ہے کہ اس کے پاؤں میں لگنے والی چوٹ ہرگز اتنی گہری نہیں تھی کہ وہ اسے مفلوج کرسکتی۔ ڈاکٹر اسے چند ورزشیں کراتا ہے جس کے بعد اس کا پاؤں پھر سے پہلے کی طرح معمول کے مطابق کام کرنے لگتا ہے۔

اس ڈس آرڈر کے شکار افراد کو مختلف جسمانی درد اور تکالیف محسوس ہوتی ہیں۔ ایسا نہیں ہےکہ وہ تکلیف اپنا وجود نہیں رکھتیں، لیکن دراصل یہ مریض کے دماغ کی پیدا کردہ ہوتی ہیں جو خیال کو تبدیل کرنے کے بعد ختم ہوجاتی ہیں۔

سائیکوٹک ڈس آرڈر یاخیالی تصوّرات

ذہنی امراض کی ایک اور قسم خیالی چیزوں اور واقعات کو محسوس کرنا ہے جسے سائیکوٹک ڈس آرڈر کہا جاتا ہے۔ اس میں مریض ایسے غیر حقیقی واقعات کو ہوتا محسوس کرتا ہے جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اس مرض کے شکار افراد کو غیر حقیقی اشیا سنائی اور دکھائی دیتی ہیں۔اسی طرح ان کے خیالات بھی نہایت نا معقول قسم کے ہوجاتے ہیں جن کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

اوبسیسو کمپلسیو ڈس آرڈر

او سی ڈی کے نام سے جانا جانے والا یہ مرض متاثرہ شخص کو کسی ایک خیال یا کام کی طرف بار بار متوجہ کرتا ہے۔ اس مرض کے شکار افراد بار بار ہاتھ دھونے، دروازوں کے لاک چیک کرنے یا اس قسم کا کوئی دوسرا کام شدت سے کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔

اپنی فکر درست رکھیں

دماغی اورنفسیاتی پے چیدگیوں کی علامات دراصل جسمانی اعضا اور ان کی کارکردگی کے بجائے زیادہ تر مریض کی فکر ، احساسات اور رویوں میں ظاہر ہوتی ہیں۔ لہٰذا ان کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا ہوناکچھ اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ تاہم ذہنی امراض کے بارے میں عام مغالطے ان مسائل میں مبتلا افراد پر بڑا ظلم ڈھاتے ہیں۔

جدید میڈیکل سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ دماغ میں موجود اعصابی خلیے سیروٹونن، آکسیٹوسین اور ڈوپامین نامی کیمیائی مادے بناتے ہیں جن کی متوازن مقدار انسان میں اطمینان، خوشی، تحریک اور جوش جیسے جذبات کو قائم رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ مختلف عوامل کے باعث اگر ان مادوں میں عدم توازن پیدا ہو جائے تو انسان بے چینی، اداسی یا گھبراہٹ محسوس کرنے لگتا ہے اور ان ہی کیفیات کو طبی زبان میں اینزائٹی اور ڈپریشن کہا جاتا ہے۔

سجھنے کی بات یہ ہے کہ بعض اوقات روز مرہ زندگی میں تشویش، غم یا خوف کی کوئی ٹھوس وجہ نہ ہونے کے باوجود ان رطوبتوں میں عدم توازن کے سبب بھی انسان ان سب کیفیات میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ ایسے موقعوں پر ماہر نفسیات سے کونسلنگ، ورزش، طرز زندگی میں تبدیلی اور سوچ کو مثبت رکھنے کی عملی مشقوں سے انسان پھر سے ہشاش بشاش ہو جاتا ہے۔ 

اگر ان کوششوں سے افاقہ نہ ہو تو کسی ماہر ڈاکٹر کی تجویز کردہ ادویات کے استعمال سے بھی عصبی کیمیائی مادوں کی مقدار میں توازن پیدا ہو جاتا ہے اور مریض چند ہفتوں میں بہتر محسوس کرنے لگتا ہے۔ لیکن اتنے سادہ سے مسئلے کو ہمارے یہاں اتنا الجھا دیا جاتا ہے کہ متاثرہ شخص کی زندگی بد سے بدتر ہوتی چلی جاتی ہے۔

اینٹی اینزائٹی اور اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کو نشے کا عادی بنانے والی ادویات قرار دے کر ان سے ہر صورت دور رہنے کی تلقین کی جاتی ہے اور مریض کو منفی سوچوں سے باہر نکالنے کے نام پر اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

دوسری جانب ہمارے ہاں لوگ تواتر سے متاثرہ شخص کی سماعتوں پر الفاظ کے ایسے کوڑے برساتے رہتے ہیں جو ان کے نفسیاتی مسائل مزید پے چیدے بنادیتے ہیں۔

خاندان اور معاشرے کی ذمّے داریاں

ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغی امراض کو اہم مسئلہ خیال کرتے ہوئے اسے اولین ترجیح دینا ضروری ہے اور حکومت کی جانب سےصحت کے بجٹ میں اس کے لیے رقم مختص کرنا وقت کی بہت اہم ضرورت ہے۔تاہم ذہنی مریضوں کی بحالی اور بہتری میں سب سے اہم کردار ان کے خاندان اور پھر معاشرے کا ہوتا ہے۔ یہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا ہمارے لیے تین وقت کا کھانا ضروری ہوتا ہے۔

لیکن تہمارے معاشرے کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ اکثر اوقات ہم اپنے اردگرد موجود مختلف لوگوں کے بارے میں یہ آرا قائم کرلیتے ہیں کہ اس کا تو لگتا ہے دماغ خراب ہے،یہ تو بالکل پاگل ہے، اس سے بات کیا کروں اس کا تو ذہنی توازن ٹھیک نہیں ہے، یا یہ تو ہے ہی نفسیاتی۔ اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے عمیر نجمی نے یہ شعر کہا تھا:

پرندے قید ہیں تم چہچہاہٹ چاہتے ہو

تمہیں تو اچھا خاصا نفسیاتی مسئلہ ہے

لیکن کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ جو لوگ حقیقت میں کسی ذہنی بیماری کا شکار ہوتے ہیں اُن پر اور اُن کے گھر والوں پر کیا گزرتی ہے؟ماہرین نفسیات کے مطابق ذہنی بیماریوں میں مبتلا افراد پر مختلف غیر ضروری اور غیر ارادی خیالات حاوی ہوجاتے ہیں جو انہیں ذہنی طور پر تھکا دیتے ہیں اور وہ ان سوچوں کی وجہ سے مفلوج ہوکر اپنے معمولاتِ زندگی سے آہستہ آہستہ دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ انہیں اس کیفیت سے نکالنے اور معمول کی زندگی کی طرف لانے کے لیے خاندان اور معاشرے کواپنا ضروری کردار ادا کرنا چاہیے۔

ذہنی بیماریاں قابلِ علاج ہیں

سب سے پہلے ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ کوئی بھی دماغی یانفسیاتی بیماری کسی ایک وجہ سے نہیں ہوتی اور اس کے لیےیہ بہت ضروری ہے کہ ہم نفسیاتی بیماریوں کو سمجھیں۔ ذہنی اور نفسیاتی امراض کا شکار مریض ہماری اور آپ کی طرح نارمل زندگی گزار سکتا ہے۔ لوگوں میں یہ امید اور شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ جیسے دیگر بیماریاں قابلِ علاج ہیں اور طبی معاونت کے ساتھ آپ عام زندگی کی جانب لوٹ سکتے ہیں، بالکل اسی طرح دماغی اور نفسیاتی امراض بھی توجہ طلب ہیں اور علاج اور تھراپی کے ذریعے متاثرہ افراد نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔

طبی معاونت حاصل کرنے کے بعد ایسے افرادکی شادیاں ہوتی ہیں، ان کے ہاں بچے ہوتے ہیں اور وہ اپنی معاشی ذمے داریاں اٹھانے کے بھی قابل ہوجاتے ہیں۔ یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ متاثرہ شخص اپنے مرض کو کتنی اچھی طرح جان لیتا ہے اور کتنی جلدی وہ اپنی علامات کو جان کر ماہرِ نفسیات سے رابطہ کرلیتا ہے اور علاج کرواتا ہے۔ ان مریضوں کو کسی نہ کسی طرح اپنے طبیب کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہنا چاہیے کیوںکہ ان مریضوں کی زندگی میں اس کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔

ماہرین نفسیات کے مطابق سائیکو تھراپی بہترین ذریعہِ علاج ہے۔ نفسیاتی بیماریوں کے علاج کے لیے بہت سی تھراپیز سے مدد حاصل کی جاتی ہے، جیسے کوگنیٹیو بیہیوئر تھراپی (Cognitive behavior therapy)، ان سائٹ تھراپی (Insight Therapy ) اور اسکیما تھراپی (Schema therapy) وغیرہ۔ ان تھراپیز سے نہ صرف مرض کی علامات کو کنٹرول کیا جاتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ خاندان کو بھی آگاہی دی جاتی ہے۔

تاہم جب ذہنی مریضوں کی حالت بہتر ہونے لگتی ہے تو انہیں لگتا ہے کہ وہ ٹھیک ہوگئے ہیں اور وہ اپنا علاج نامکمل چھوڑ دیتے ہیں۔ اسی لیے علاج کے آغاز پر طبیبوں کی توجہ اس بات پر ہوتی ہے کہ انہیں دوباتیں بتادیں کہ اگرچہ مریض علاج کے دو، تین ہفتوں میں ہی اپنے اندر بہتری دیکھنا شروع کردیتے ہیں، لیکن اس کے بعد علاج کی ضرورت بڑھ جاتی ہے ،کیوں کہ مریض تھراپی پر ردعمل دینا شروع کردیتا ہے۔

پہلے مرحلے میں طبیب مرض کی علامات کو دوا سے کنٹرول کرتے ہیں۔ جب وہ کنٹرول ہوجاتی ہیں تو دوسرا مرحلہ فارماکولوجیکل تھراپی کا ہوتا ہے تاکہ مریض کو مزید ذہنی بیماری کے حملے سے بچایا جاسکے۔ تھراپی کا کردار بہت اہم ہے اور تجربات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب مریض اپنے آپ کو ڈاکٹر کے حوالے کردیتا ہے اوراسے اپنا مسیحا ماننا شروع کردیتا ہے تو اسے کھل کرطبیب کی بات سمجھ میں آنے لگتی ہے۔ ایسے میں وہ ضرور طبیب کی ہدایت پر عمل کرنے لگتا ہے اور تھراپی کو بھی جاری رکھتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ خاندان کی مدد اور حمایت کے ذریعے ایسے افراد کی صحت یابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ذہنی مریضوں کی بحالی اور بہتری میں سب سے اہم کردار ان کے خاندان کا ہوتا ہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جن مریضوں کا خاندان ان کی ذہنی بیماری کو سمجھتا ہے اور ان کا ساتھ دیتا ہے، ان مریضوں کی صحت یابی اور بحالی کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔

علاج اور ادویات کے ضمن میں غلط فہمیاں 

نفسیاتی اورذہنی امراض کے علاج کے لیے طبیبوں کی تجویز کردہ ادویہ کا استعمال باقاعدگی سے کرنا ضروری ہے۔ نفسیاتی اورذہنی بیماریوں کے علاج اور ادویات سے متعلق ہمارے معاشرے میں کافی شکوک و شہبات اور غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔

مثلا جب ہمارے جسم یا سر میں درد ہوتا ہے تو زیادہ تر لوگ ایک عام ملنے والی دوا استعمال کرتے ہیں اور اسی طرح دیگر بیماریوں میں بھی بہت سی عام استعمال کی ادویہ لی جاتی ہیں۔ ان ادویہ کے کوئی نہ کوئی تو مضر اثرات ہوتے ہیں، لیکن وہ ہر شخص پر پوری طرح ظاہر نہیں ہوتے۔

بالکل اسی طرح جو ادویہ ذہنی اور نفسیاتی امراض کے علاج کے لیے دی جاتی ہیں ان کے بھی سائیڈ افیکٹ ضرور ہوتے ہیں۔ تاہم جتنی وہ ادویہ فائدہ مند ہوتی ہیں اس کےمقابلے میں سائیڈ افیکٹ نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ نفسیاتی علاج کے لیے استعمال ہونے والی ادویہ سے بہت نیند آتی ہے اور نہ ہی ذہن ماؤف ہوتا ہے۔

آج کے طبیب ہر مریض کی طبی حالت، اس کی عمر اور اس کی کیفیات اور معلومات کو دیکھتے ہوئے بہت محفوظ دوا تجویز کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب نفسیاتی یا ذہنی مرض کے شکار کسی مریض کو مناسب تشخیص اور مناسب دوا دی جاتی ہے اور مریض دوا کے استعمال کو جاری رکھتے ہیں تو مرض کے خلاف ان کی قوتِ مدافعت بڑھ جاتی ہے۔

ماہرین کے بہ قول ہمیں من حیث القوم یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جس طرح ہم اپنی جسمانی بیماریوں کے علاج کو سنجیدگی سے لیتے ہیں، ذہنی امراض بھی اسی قدر توجہ اور علاج کے مستحق ہیں۔

چند راہ نما اصول

ذہنی اور نفسیاتی طورپر صحت مند رہنے کے لیے ماہرین یہ مشورہ دیتے ہیں کہ چوبیس گھنٹوں کے دوران آٹھ گھنٹے کی نیند لازمی لیں تاکہ دن بھر کی تھکاوٹ دور ہو سکے اور جسم و دماغ کھوئی ہوئی توانائی بحال کر لیں۔کھانا آرام و سکون سے کھائیں۔ غصہ، حسد اور کینہ جیسی منفی عادات سے احتراز برتیں۔ غصے کے دوران ہمیشہ ضبط سے کام لیں۔ لوگوں سے ہمیشہ خوش اسلوبی سے ملیں اور چھوٹی موٹی باتوں کو درگزر کریں۔

ہر بات کو اپنے ذہن پر سوار مت کریں۔ اگر کوئی ناموافق بات سنیں یا نظر آئے تو اسے بھلانے کی کوشش کریں۔ چھوٹوں سے پیار و محبت اور بڑے افراد کا ادب کریں۔ لالچ ، حرص و ہوس سے گریز کریں۔ ہر قسم کے نشے سے دور رہیں۔احساسِ کم تری یا برتری کو کبھی اپنے اوپر غالب نہ آنے دیں اور مراقبہ یعنی خاموشی ویک سوئی سے ارتکاز اور ورزش کی عادت ڈالیں جو ذہنی و جسمانی صحت کے لیے اکسیر کی حیثیت رکھتے ہیں۔

پاکستان میں ذہنی امراض کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں ذہنی صحت کے حوالے سے شہریوں کی صورت حال اچھی نہیں ہے اور ملک میں ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔اسی وجہ سے ملک میں خود کشیوں کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ ملک میں غربت، منہگائی، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ اورخاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ کے علاوہ بے یقینی اور عدم تحفط کا بڑھتا ہوا احساس لوگوں میں اضطراب، بے چینی، چڑچڑاپن، غصہ اور ذہنی دباؤ پیدا کرنے کا باعث بنتا جا رہاہے، جو لوگوں کی جسمانی ، ذہنی و نفسیاتی صحت کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ زندگی گزارنے کے لیے ہمیشہ پر اْمید اور مثبت انداز اختیار کریں۔ واہمے اور نااْمیدی انسان کو کم زور کر دیتی ہے اور کم زور انسان بیماریوں کا گڑھ بن جاتا ہے ۔ یہ حالت مسلسل رہے تو آخر کار انسان ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو کر نہ صرف اپنی بلکہ اپنے پیاروں کی زندگی کے لیے بھی روگ بن جاتا ہے۔