• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

قارئین کرام !جاری موضوع پر ’’آئین نو‘‘ کی پہلی اشاعت میں ہمارے روایتی قومی سیاسی و جمہوری عمل میں جلسہ ہائے عام کے مقابل علم ابلاغ عامہ (MASS COMMUNICATION)کی نتیجہ خیز کمیونیکشن پروڈکٹ ’’سوشیو پولیٹکل موبلائزیشن‘‘ کے رائے عامہ کی تشکیل میں زیادہ موثر ہونے کا نکتہ پیش کیا گیا تھا۔ واضح رہے سوشل موبلائزیشن ،ترقیاتی ابلاغ عامہ جو ابلاغ عامہ کی اہم ترین سپیشلائزیشن ثابت ہو چکی ہے ’’سوشل موبلائزیشن‘‘ اسی کا انقلاب آفریں کمیونیکیشن آپریشن برائے سوشل ڈویلپمنٹ ہے۔ ترقی یافتہ و ترقی پذیر ہر دو جدید معاشروں میں علم سیاسیات و ابلاغیات کے ماہرین نے اسمارٹ سیاسی جماعتوں میں عملی سیاست میں ’’سوشل موبلائزیشن‘‘ سے مدد لیکر روایتی سیاسی ابلاغ میں جگہ بنا کر بڑے اہداف حاصل کرنے کے کامیاب ترین تجربات کئے اس کی دنیا کی ملکی داخلی سیاست میں حالیہ تابندہ مثال بنگلہ دیش میں سولہ سالہ شیخ حسینہ واجد فسطائی رجیم کا پرامن خاتمہ بذریعہ سوشیو پولیٹکل موبلائزیشن ہے جو مختلف شہروں میں سرکاری ملازمتوں کی حکومتی کوٹہ پالیسی کے خلاف مختلف شہروں میں نیم سیاسی مطالبے کی چھوٹی چھوٹی احتجاجی ریلیوں سے ملک گیر سوشیو پولیٹکل موبلائزیشن میں تبدیل ہو گیا۔ یہ سوشیو اس اعتبار سے تھا کہ اس میں بنگلہ دیشی معاشرے کا فقط ایک حساس ترین لیکن بڑے حجم کے اور سرگرم طبقہ (SEGMENT)نے اپنے فقط ایک مطالبے ’’نئی کوٹہ پالیسی واپس لینے‘‘ کے مطالبے پر ملکی سطح پر سوشل موبلائزیشن کے طریق کو استعمال کیا۔یہ پولیٹکل (سیاسی) بہت جلد اور بہت زیادہ اس لئے ہو گیا کہ حسینہ فسطائی مزاج حکومت اپنے فسطائی طریق اور حکومتی رٹ کے مہلک استعمال سے پالیسی سے پہلے بھی ڈسے طلبہ کے مکمل جائز و جمہوری مطالبے کو کچلنے پر تل گئی، طلبہ کی سوشل موبلائزیشن جس میں کوئی سیاسی جماعت شامل تھی نہ لیڈر بلکہ یہ ایک بڑا معاشرتی اور غیر سیاسی طبقہ ایک غیر سیاسی مطالبہ منوانے کیلئے شروع ہوئی تھی حکومتی سخت گیر رویے کے مقابلے میں خود بھی جارحانہ ہوتی گئی اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف جملہ طبقات اور لیڈر شپ کی حمایت بھی اسے حاصل ہونے لگی۔ جس سے غالب قومی ابلاغی ملک گیر ہوتے حکومتی فسطائی اقدامات خصوصاً 600طلبہ کی شہادت اور ہزاروں شہریوں کے زخمی ہونے کے خلاف ہم آہنگ ہوتا جارحانہ اور انقلابی ہو گیا لیکن بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل وقار زمان کے وزیر اعظم حسینہ سے کامیابی اور مختصر ترین انٹرپرسنل کمیونیکیشن آپریشن (ONE ON ONE) طلبہ کی جارحانہ ہوتی سوشیو پولیٹکل موبلائزیشن فاشسٹ رجیم سے براہ راست اور پرتشدد ٹکرائو سے محفوظ رہی وگرنہ حکومت تو طلبہ کو بندوق کے زور پر کچلنے کی پالیسی پر سختی سے عمل پیرا تھی۔ گویا دوکامیاب ترین کمیونیکیشن آپریشنز طلبہ کی جارحانہ لیکن وائیو لینس فری اور جنرل وقار کی کامیاب ترین انٹرپرسنل کمیونیکیشن سے بنگلہ دیش میں فاشسٹ رجیم تو عین عوامی آرزوئوں اور فطری مطالبات کے نتیجے میں خونریز انقلاب سے بچ گیا جب حسینہ واجد پی ایم ہائوس پر طلبہ کا دھاوا بولنے سے پہلے بھارت فرار ہو گئیں۔

قارئین کرام! زیر نظر موضوع یوں ’’آئین نو‘‘ کا عنوان بنا کہ :پاکستان میں موجود حکومتی اور اپوزیشن آپریشنز پاکستان کے بیش بہا کمیونیکیشن ٹیکنالوجی اور مطلوب علم ابلاغیات میں خود کفیل ہونے کے باوجود ہمارے قومی ابلاغی دھارے میں بڑے بڑے کمیونیکیشن ڈیزاسٹر ہوئے ہیں جن سے موجود سخت متنازع (خصوصاً عوام میں) حکومت اور عوام ہی میں مقبول ترین پارلیمانی قوت (بطور اپوزیشن) کی جاری سیاسی معرکہ آرائی میں بہت بڑے بڑے کمیونیکیشن ڈیزاسٹر ہو رہے ہیں۔ حکومت ریاستی امور کے حوالے سے جتنی تجربہ کار اور گھاگ ہے اور اپوزیشن اپنے عوامی مینڈیٹ (مسروقہ ہوئے) کے حوالے سے حجم میں جتنی بڑی اور ثابت قدم ہے ہر دو کے کمیونیکیشن کے ڈیزاسٹرز سے ملکی انتہا میں پہنچا سیاسی و معاشی عدم استحکام کا گراف بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

پی ڈی ایم 2 واضح طور پر حکومت (بشمول پی پی) کا مسئلہ تو یہ ہے کہ میثاق جمہوریت سے متصادم ن لیگی اور پی پی دونوں کی مشترکہ (پی پی کا یہ دعویٰ لغو ہے کہ ہم حکومتی شریک نہیں) کنٹینر ڈیموکریسی کے ساتھ ساتھ اپنے بیانیوں کے الٹ اثر کی مار کھا رہے ہیں اور پی ٹی آئی کامیاب ترین لیڈر شپ کمیونیکیشن کے ساتھ ساتھ پارٹی کی دفاعی اور خود ہی پیچیدہ بنائے غیر ذمے دارانہ یا غیر ضروری بیانیوں کی پکڑ میں ہے۔ لیکن تحریک انصاف کی اس ابلاغی کمی اور خامی کی کسر تو سوسائٹی کو ذہنناً اور عملاً موبلائز رکھنے والا جارح سوشل پرو پی ٹی آئی میڈیا جملہ سیاسی ضرورتیں بخوبی پوری کر رہا ہے جبکہ پی ڈی ایم 2کی پارٹیاں فارم 45کی بجائے 47سے غیر آئینی طور پائی تشکیل متنازع حکومت ’’مینڈیٹ چوری‘‘ کے عمل قابل فہم اور ایٹ لارج مانے گئے الزام کو وزرا کی اولڈ میڈیا پر پریس کانفرنسز کی بھرمار سے کائونٹر کرنے میں صرف مکمل ناکام ہی پی ٹی آئی کیلئے ووٹ ساز بلیم گیم بن گئی ہے۔ پی ڈی ایم 2اور حکومتی میڈیا منیجرز اس (تقریباً) ثابت شدہ ابلاغی حقیقت کو سمجھنے سے یکسر عاری ہیں کہ اس کی مطلوب سیاسی ابلاغ کی بجائے یہ عمران اور پی ٹی آئی مخالف پروپیگنڈہ خود حکومت ،حکومتی اتحاد کےلئے کتنے خسارے اور ہد ف کیلئےکتنی کارآمد ثابت ہو رہی ہے اس کھلی ابلاغی راز دانی کو کوئی پیرِدانائی سمجھا ہے تو وہ حضرت مولانا صاحب ہیں جو کہنے کو تو پی ڈی ایم کے بانی ہیں لیکن حکومتی و عوامی ابلاغ اور اس سے نکلے نوشتہ دیوار کو جس سرعت و ذہانت سے بڑھ کر وہ پی ڈی ایم کی چانکیہ فلاسفی سے تائب ہوئے ہیں اس پر انہوں نے سابقہ دوستوں اور حریفوں سے خود کو زیرک تو منوا لیا کہ ان کا ابلاغ حق سچ اور جمہوریت پسند وں کیلئے دل آویز ثابت ہو رہا ہے ۔پی ڈی ایم کی مجموعی قیادت کبھی سمجھ نہ پائے گی کہ جب پی ٹی آئی اپنے قائد کی رہائی کا دبائو بڑھانے کیلئے جلسے کا اعلان کر تی ہے تو حکومت غیر جمہوری و غیر آئینی ہتھکنڈوں کے ساتھ ساتھ اپنے ہی خلاف ہونے والے بااثر ڈیزاسٹر انتظامی اقدامات کرتی ہے۔ اس سے کیسے کیسے حکومت مخالف اور پروپی ٹی آئی پیغامات تیار ہو رہے ہوتے ہیں۔ ادھر پی ٹی آئی والے رکاوٹوں، مشکلات اور اذیتوں سے بھرے جلسے کے لئے پرعزم تو ہو جاتے ہیں لیکن کنٹینر ڈیموکریسی حکومت ماڈل کی رکاوٹیں ان کے لئے کتنی باعث اعزاز و وقار و ہمدردی بن جاتی ہیں ادھورا، کٹا پھٹا جلسہ اور شہر شہر مقام روانگی سے جلسہ گاہ تک پورے ملک میں پی ٹی آئی کی (نادانستہ) غیر منظم سی لیکن ملک اور بین الاصوبائی سوشیو پولیٹکل موبلائزیشن کی سوشل میڈیا سے کوریج اور اس کے خلاف پہاڑ جیسی حکومتی رکاوٹوں کے مناظر ٹی وی اسکرینوں پر گھروں میں بھی کتنی مثبت ہل چل پی ٹی آئی اور کتنے خسارے والا ابلاغ حکومت اور پی ڈی ایم ابلاغی مہم بن جاتے ہیں اس کالم کا محرک وہ تصدیق ہے جو آرٹی فیشل انٹیلی جنس کے Meta AIکی آئین نو کیلئے کی جانے والی انکوائری پر علم و تحقیق سے لبریز اس پلیٹ فارم نے ’’آئین نو‘‘ کی تخلیق اصطلاح سوشیو پولیٹکل موبلائزیشن کو نیا آئیڈیا قرار دیکر کی۔

تازہ ترین