وطن عزیز پاکستان کو قائم ہوئے77سال ہو چکے ہیں او ر ابتداہی سے جمہوریت اس کا مقدر ٹھہری تھی۔کیونکہ یہ ملک عوام کے ووٹ کی طاقت سے معرض وجود میں آیا تھا اور جمہوریت کے ذریعے اس نے ترقی کی منازل طے کر کے دنیا میں اپنا مقام بنانا تھا، امریکی آنجہانی صدر ابراہم لنکن نے جمہوریت کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ جمہوریت وہ طرز حکمرانی ہے جو عوام کیلئے، عوام کی طرف اور عوام پر ہوتی ہے۔ عوامی ووٹوں سے منتخب نمائندے مقننہ تشکیل دیتے ہیں جو تمام امور بشمول قانون سازی، خارجہ پالیسی، داخلہ پالیسی، معاشی پالیسی وغیرہ کا فیصلہ کرتی ہے اور ریاست کے تمام ادارے مقننہ کے ماتحت ہوتے ہیں۔ مغربی دنیا جہاں پر جمہوریت آج ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر چکی ہے اس سطح پر ایک طویل تاریخی عمل طے کر کے پہنچی ہے، ایک طویل جدوجہد کے بعد انہیں جمہوریت کے ثمرات ملنا شروع ہوئے ہیں۔
بد قسمتی سے وطن عزیز میں جمہوریت بہت کمزور اور ابتدائی سطح پر ہے کیونکہ اس ملک پر کافی عرصہ مارشل لا مسلط رہا، جسکی وجہ سے جمہوریت پنپ نہ سکی۔ دوسری وجہ تعلیم کا فقدان ہے۔ تعلیم عوامی نمائندوں میں شعور پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور برداشت کی قوت عطا کر تی ہے۔ جمہوریت ہی وہ طرز حکومت ہے جو اسلام کے شورائی نظام کے قریب ترین ہے۔ اسمبلی ہی وہ جگہ ہے جہاں پر عوام کے منتخب نمائندے سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور مشاورت کے بعد عوام کی فلا ح کے فیصلے کر تے ہیں ۔ اس میں اپوزیشن کی تجاویز کو بھی شامل کیا جاتا ہے اور اکثر یتی فیصلے قانون کی شکل اختیار کر تے ہیں۔ پاکستان میں فیڈریشن کو جوڑنے میں 1973ء کے آئین کابنیادی کردار ہے۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اس میںگاہےگاہے ضرورت کے تحت ترامیم بھی ہوتی رہیں۔ آئین پاکستان شہریوں کے بنیادی حقوق کا ضامن ہے اور عدالتی نظام ہر سطح پر اس سے راہنمائی حاصل کر تا ہے۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی و دیگر اتحادی جماعتوں کی موجودہ حکومت جب سے بر سر اقتدار آئی ہے اس نے اپوزیشن کو ناکوں چنے چبوائے ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف، جو مجموعی طور پر قومی اسمبلی میں واحد اکثریتی جماعت ہے، کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کی مخصوص نشستوں کے علاوہ اس کی اپنی نشستیں بھی اسے نہیں دی جا رہیں ۔ اس جماعت کے بانی عمران خان اور ان کی بیگم پابند سلاسل ہیں۔ اپوزیشن کو بزور قوت ڈرانا دھمکانا اور مقدمات قائم کرنا جمہوریت نہیں فاشزم ہے۔ اسلام آباد میں پہلےجلسے کی اجازت نہ دینا اور پھر جلسہ منعقد کرنے کے بعد ممبران پارلیمنٹ کوپارلیمنٹ کے دروازے پر گرفتار کرنا کیا جمہوریت ہے۔ ہماری جمہوریت اب نوزائیدہ نہیں ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ دو دہائیوں سے مسلسل سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے مگر ہمارے حکمران ماضی سے سیکھنے کیلئے تیا ر نہیں۔ حکومت اپنے قلب کو وسیع کرتی اور تحریک انصاف کو جلسہ کرنے میں معاونت فراہم کرتی تو اس کو آئینی ترمیم پر جو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس سے شائد بچ جاتی۔ سیاسی جماعتوں کو نظام چلانے کیلئے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے آخر کب تک مخالفین کی پکڑدھکڑکا سلسلہ جاری رہے گا۔ سو شل میدیا اور ٹیکنالوجی کے اس دو ر میں جب دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے اور کیمرے کی آنکھ ہر کسی کو کہیں نہ کہیں دیکھ کر واقعات کو ریکارڈ کر رہی ہے۔عوامی شعور کا لیول بلند ہو چکا ہے اس موقع پر ہم کہیں کہ ارکان پارلیمنٹ کو پارلیمنٹ کے دروازے پر گرفتار نہیں کیا گیا تو ہم کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔کیا یہ کہ عوام بے وقوف ہیں؟
گزشتہ اتوار کو ارکان پارلیمنٹ سمیت پوری قوم پر ایک ہیجانی کیفیت طاری رہی۔ حکومت نے اپنے حمایت یافتہ ارکان پارلیمنٹ کو پابند کر کے انہیں ایوان کے اجلاس میں شرکت کر کے آئینی ترامیم پاس کرنے کا عندیہ دیا تھامگر رات گئے تک مسلسل اجلاسوں کے انعقاد اور رابطوں کے باوجود آئینی ترامیم ایوان میں پیش نہ کی جا سکیں پاس کروانا تو دور کی بات تھی۔ اگرحکومت کی تیاری نہ تھی اور اس کے پاس مطلوبہ ممبران کی حمایت نہ تھی تو پھر پوری قوم کو ٹینشن دینے کی کیا ضرورت تھی۔ حکومت کا اپنا بھر م بھی کھل گیا کہ اس کے پاس اکثریت نہیں ہے۔ صدر آصف علی زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقاتیں بھی رنگ نہ لائیں او ر مولانا اپنی پالیسی پر قائم رہے اور اپنے نقطہ نظر کو منوا کر دم لیا اور حکومت اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔