سوال پُرانا ہی سہی مگر آج پوری شدّت سے اُٹھ کھڑا ہوا ہے اور جواب مانگتا ہے۔ کوئی بھی ادارہ، راہِ راست سے بھٹکے تو عدالت اُسکی گرفت کرتی ہے۔ پارلیمنٹ کے کسی بھی قانون کو اِس دلیل پر کالعدم قرار دے دیتی ہے کہ وہ آئین کے الفاظ یا روح سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اگر عدالت آئین و قانون کے واضح آرٹیکلز کی نفی کرے تو اُسے کون ٹھیک کریگا؟ میں نے 12جولائی 2024ء کے عدالتی فیصلے کو اُونٹ سے تشبیہ دی تھی جسکی کوئی کَل سیدھی نہیں ہوتی۔ چینی آبگینوں کی دکان میں گھُس آنیوالا بیل (A bull in the china Shop) قرار دیا تھا۔ بچے جنم دیے چلے جانیوالا ’’کثیرالاولاد بحران‘‘ کہا تھا۔ عجوبۂِ روزگار، ہشت پہلو اور کثیرالزاویہ جیسی اصطلاحات استعمال کی تھیں۔ ’بیانیہ‘ کے وزن پر ’’بحرانیہ‘‘ کا لفظ وضع کیا تھا۔ لیکن 23ستمبر کے تفصیلی فیصلے پر ایک نظر ڈالنے سے اندازہ ہوا کہ میں اِس ’شاہکار‘ سے انصاف نہیں کر پا رہا۔ سچ یہ ہے کہ نہ تو کسی لُغت میں کوئی ایسا لفظ موجود ہے جو اس ’تاریخ شکن‘ فیصلے کی افادیت، اہمیت اور معنویّت کا کماحَقَّہُ احاطہ کرتا ہو نہ آج تک کوئی ایسا محاورہ وجود میں آیا جو اِس کے تمام پہلوئوں کے اچھوتے پن کو واضح کرسکے۔ جانے کس کا شعر ہے۔
حُسن جب بے نقاب ہوتا ہے
آپ اپنا جواب ہوتا ہے
سو12 جولائی کا فیصلہ بھی دوشیزۂِ عدل کے حُسنِ بے نقاب کی دِل فریب ادا ہے جو اپنا جواب آپ ہی ہے۔ کوئی قلم اِسکی چھَب سے انصاف نہیں کرسکتا۔
یاد نہیں پڑتا کہ کسی آئینی وقانونی معاملے پر عدالتی فیصلے کے بعد ایسا بھونچال آیاہو کہ جسکے اِرتعاشاتِ مابعد (After Shocks) 80دِن گزر جانے کے بعد بھی تھمنے میں نہیں آ رہے۔ پارلیمنٹ دانتوں میں انگلیوں دابے بیٹھی ہے کہ آئین وقانون کی جیتی جاگتی شقوں کو کس طرح زندہ دَرگور کر دے؟ وہ اگست میں، الیکشن ایکٹ 2017ءمیں کی گئی، موثر بہ ماضی ترمیم کو گود میں لئے بیٹھی ہے جس کی طرف آٹھ جج صاحبان کے ہشت پہلو فیصلے نے آنکھ بھر کے بھی نہیں دیکھا۔ الیکشن کمیشن دِیواروں سے سر ٹکرا رہا ہے لیکن کوئی دَر، کوئی دریچہ نہیں کھُل رہا۔ پہلے اُس نے ایک دَست بستہ درخواست کے ذریعے عدالت سے راہنمائی چاہی۔ پھر نظرثانی کی عرضی گزاری۔ پھر ایک متفرق درخواست پیشِ خدمت کی۔ پھر 14ستمبر کے حکم پر نظرثانی کی التماس کی۔ پھر فیصلہ معطّل کرنے کی استدعا کی۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر اور چاروں صوبائی اسپیکرز کے خطوط کمیشن کی میز پہ دَھرے اُسے اپنی آئینی ذمہ داریاں یاد دِلا رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پا ر ٹی، سوا دو ماہ سے اپنی نظرثانی درخواستیں لگنے کیلئے تسبیحِ روزوشب کا دانہ دانہ شمار کررہی ہیں۔ تحریکِ انصاف بھی، جو اِس معاملے سے قطعی طور پر لاتعلق بیٹھی تھی، میدان میں آ گئی ہے اور ایک پٹیشن دائر کرچکی ہے۔ فیصلے پر عملدرآمد کیلئے ایک درخواست لاہور ہائیکورٹ میں بھی لگ چکی ہے۔ اُدھر خود ایوانِ عدل کے دَرودِیوار پر کپکپی طاری ہے۔ جج صاحبان کے درمیان ’قلمی معرکہ‘ عروج پر ہے۔ ایک دوسرے کو خطوط لکھے جارہے ہیں جن کے حرف حرف سے گہری محبت کی دلآویز خوشبو اُٹھ رہی ہے۔ پورا ایوان مہک رہا ہے۔ کیف وسرُور سے مَسحور رجسٹرار اور ڈپٹی رجسٹرار بھی عدالت کے چوباروں سے رُومانوی رُقعے پھینک رہے ہیں۔ غرض 12جولائی کے بعد سے شہرِعدل کی رونقیں جوبَن پر ہیں۔ چہل پہل دِیدنی ہے۔ کَھوّے سے کَھوّا چِھل رہا ہے اور کان پڑی آواز سُنائی نہیں دے رہی۔ ساری دنیا کی طرح ہمارے ہاں بھی عدل کے ایوانوں سے ایک خاص نوع کا تقدس جُڑا ہے۔ سُنہری گوٹے کِناری والی سیاہ عبائوں سے فرشتوں کے پَروں کی خوشبو بھَلے نہ آئے، عقیدت کی دِھیمی دِھیمی مہک ضرور اُٹھتی رہتی ہے لیکن 12جولائی کے فیصلے نے سب کچھ متاعِ کوچہ وبازار بنا دیا ہے۔
ساغر صدیقی کا شعر ہے
کَل جنہیں چھُو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونقِ بازار نظر آتے ہیں
فرشتوں کی نظریں نہ چھونے کا مرحلہ تو 1954 ء میں ہی تمام ہوگیا تھا، لیکن رونقِ بازار کا یہ عالم طویل عرصے بعد دِکھائی دیا ہے۔ سامری کے بچھڑے جیسے طلسمی فیصلے کو سمجھنے کیلئے بار بار کہی باتیں پھر دوہرانا پڑتی ہیں۔ 21فروری کو کامیاب امیدواروں کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا۔ وکلا سے لَدی پھَندی پی۔ٹی۔آئی نے اپنے آزادوں کو حکم دیا کہ وہ آئین وقانون کی پاس داری کرتے ہوئے فی الفور سُنّی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کرلیں۔ ایک باضابطہ پارلیمانی پارٹی وجود میں آ گئی۔ یہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی تھی۔ اسی منصوبے کے مطابق سُنّی اتحاد کونسل، مخصوص نشستوں کیلئے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ سے بے مُراد رہنے کے بعد اپیل لیکر سپریم کورٹ پہنچ گئی۔ تیرہ رُکنی فُل بینچ نے بھی اپیل مسترد کرتے ہوئے قرار دیاکہ یہ نشستیں کسی طورسُنّی اتحاد کونسل کو نہیں مِل سکتیں۔ بظاہر قصّہ تمام ہوگیا۔ اُصولی طورپر یہ معاملہ یہیں ختم ہوجانا چاہیے تھا۔ پٹیشنر کو بتا دیاگیا کہ آپ جو مانگنے آئے ہیں آپ کو نہیں مل سکتا۔ انصاف کا ایک تقاضا یہ بھی ممکن تھا کہ مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کو ملنے والی اضافی سیٹیں اُن سے واپس لے کر سُنّی اتحاد کونسل کو دیدی جاتیں۔ لیکن عدالت نے ’’انصاف‘‘ کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ’’مکمل انصاف‘‘ کی ٹھانی اور یہیں سے آٹھ جج صاحبان کے ہشت پہلو فیصلے کی اُس فتنہ سامانی کا آغاز ہوا جس کو کسی کروٹ قرار نہیں آ رہا۔ مسئلہ یہ بنا کہ مخصوص نشستوں کے حوالے سے آئین بھی نہایت واضح تھا اور قانون بھی۔ ’’مکمل انصاف‘‘ کیلئے آئینی وقانونی شقوں کے چہرے پر کالک تھوپنا ضروری تھا سو تھوپ دی گئی۔ سیدھی صاف سڑک سے ہٹ کر گھنے جنگل سے پگڈنڈی بنانا پڑے تو کئی تناور درختوں کی سر سبز و شا د ا ب شاخوں کو بھی کاٹنا پڑتا ہے۔ ہشت پہلو فیصلے نے یہی کچھ کیا۔ آئین کے آرٹیکل 51(6) میں بتایاگیا ہے کہ آزاد ارکان کو تین دِن کے اندر اندر کسی پارٹی میں شمولیت یا آزاد رہنے کا فیصلہ کرنا ہے۔ عدالت نے ’3‘ کے ہند سے کو ’15‘ سے بدل دیا۔ کیا عدالت کو یہ اختیار تھا؟ کیا وہ آئین میں ترمیم کی مجاز تھی؟ آئین اور قانون کہتے ہیں کہ آزاد امیدوار نوٹی فکیشن کے تین دِن کے اندر اندر صرف ایک بار یہ اختیار استعمال کرسکتے ہیں۔ عدالت کس طرح آئین وقانون کو پسِ پشت ڈال کر ارکان کو دوسری بار یہ اختیار دے سکتی ہے جبکہ اِن ارکان میں سے کسی ایک نے بھی آج تک ایسی کوئی عرضی گزاری نہ استدعا کی۔ تفصیلی فیصلہ بھی ’’عجائب گھر‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ پیراگراف 32میں آٹھ جج صاحبان کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو انتخابی نشان الاٹ نہ کرنے کے فیصلے کا اطلاق 8فروری کے انتخابات پر نہیں کرنا چاہیے تھا کیوں کہ قانون میں ’Subsequent‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ معمولی طالب علم بھی جانتا ہے کہ ’Subsequent‘ کے معنی فوراً مابعد کے ہیں۔ یعنی قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو آنے والے انتخابات میں انتخابی نشان نہیں ملے گا۔ لیکن عدالت کے مطابق پی۔ٹی۔آئی نے جو کچھ بھی کیا، اُسکی سزا کا اطلاق 2029ء کے انتخابات پر ہونا چاہئے تھا۔ جب فیصلہ پہلے کرلیا جائے اور آئین وقانون اُسکی راہ میں رکاوٹ بن جائیں تو ایسے ہی دلائل تخلیق کئے جاتے ہیں۔ ’’مکمل انصاف‘‘ کی معجون مرکب اِنہی مُفرَدات سے تیار ہوئی ہے جس نے پارلیمنٹ سمیت تمام انتظامی وآئینی اداروں کے رگ وپے میں ہیجان بپا کردیا ہے۔