• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد کے ڈی چوک میں احتجاج کیلئے پہنچنے کی کوشش میں پی ٹی آئی کارکنوں کی ہنگامہ آرائی، نعرے بازی، املاک کی توڑ پھوڑ، آتش زنی، پولیس اور رینجرز سے تصادم اور گرفتاریوں کے بعد وفاقی دارالحکومت میں صورتحال تو معمول پر آگئی لیکن اس دوران حکومتی اعدادوشمار کے مطابق سرکاری اور نجی املاک کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ مشتعل کارکنوں نے441کیمرے، 60موٹرسائیکل اور لاتعداد گاڑیوں کے شیشے توڑ ڈالے۔ ایک پولیس کانسٹیبل کو وحشیانہ تشدد کرکے مار ڈالا۔ پولیس نے املاک پر حملوں اور توڑ پھوڑ کے الزامات میں تقریبا ًایک ہزار افراد کو گرفتار کرلیا، جن میں پشاور سے آنیوالے پی ٹی آئی جلوس میں شامل 120افغان شامل ہیں۔40سرکاری ملازمین بھی جن کا تعلق ریسکیو 1122سے ہے، پکڑے گئے۔ 17سرکاری گاڑیاں قبضے میں لے لی گئیں۔ مبصرین نے اسلام آباد سیف سٹی پراجیکٹ پر سوال اٹھایا ہے کہ شہر کے امن وامان کیلئے تین ہزار کیمرے لگائے گئے ہیں مگر تمام تر حفاظتی اقدامات کے باوجود مشتعل احتجاجی جلوس ڈی چوک تک پہنچنے میں کامیاب کیونکر ہوگیا، جس کی قیادت خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ، علی امین گنڈاپور خود کر رہے تھے۔ زیادہ حیرت ناک بات وزیراعلیٰ کی گمشدگی ہے ۔ پی ٹی آئی کے لیڈر دو روز تک شور مچاتے رہے کہ انھیں ایجنسیوں نے اغوا کرلیا ہے جبکہ حکومت اسکی تردید کرتی رہی۔ گمشدگی کا ڈرامہ اس وقت انجام کو پہنچا جب وزیراعلیٰ اتوار کی رات پشاور میں نمودار ہوئے اور کے پی اسمبلی میں پہنچ کر پارٹی کے پروپیگنڈے کی خود نفی کردی۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ ساری رات کے پی ہائوس اسلام آباد میں رہے اور اپنی گرفتاری کیلئے پولیس چھاپوں کا تماشا دیکھتے رہے تاہم حکومتی وزرا کا کہنا ہے کہ علی امین کے پی ہائوس میں نہیں تھے بلکہ وہاں سے فرار ہوگئے تھے۔ انکی خودساختہ گمشدگی کا مقصد اندرون اور بیرون ملک پاکستان اور اسکی حکومت کو بدنام کرنا تھا۔ اس سلسلے میں وہ ایسے ہی مواقع پر پی ٹی آئی کے بیرونی ملکوں میں مظاہروں، عالمی اداروں کو لکھے گئے خطوط اور اخباری بیانات کا حوالہ دیتے ہیں جن سے بین الاقوامی سطح پر ملک کی سبکی ہوتی رہی۔ وزیراعلیٰ کی رونمائی سے قبل کے پی اسمبلی انکی مبینہ گرفتاری یا اغوا کی مذمت اور بازیابی کیلئے باقاعدہ قرارداد منظور کرچکی تھی۔ مظاہرین کے تشدد سے جاں بحق ہونیوالے کانسٹیبل عبدالحمید شاہ کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے۔ اسکی نماز جنازہ میں وفاقی وزیرداخلہ اور گورنر کے پی نے بھی شرکت کی جبکہ وزیراعظم شہبازشریف نے ہدایت کی ہے کہ اسکے قاتلوں اور اسلام آباد پر دھاوا بولنے والوں کو کڑی سزا دی جائے۔ اس مقصد کیلئے پی ٹی آئی کے مظاہرین کے خلاف دس مقدمات درج کرلئے گئے ہیں۔ اتوار کو اسلام آباد اور اس کے ساتھ ہی لاہور میں مینارپاکستان پر پی ٹی آئی کے مظاہروں کے پروگرام کا وقت معنی خیز تھا۔ ان دنوں ملائیشیا کے وزیراعظم پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے تھے۔ سعودی عرب کا وفد آنیوالا ہے جبکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی تیاریاں بھی عروج پر ہیں۔ ایسے میں پی ٹی آئی کے احتجاجی جلوس اور ہنگامہ آرائی کا کوئی جواز نہیں تھا۔ حکومت نے اسے موخر کرنے کی پیشکش بھی کی، مگر پی ٹی آئی قیادت اپنے لیڈر کی رہائی کیلئے ایسے ہی موقع پر ہنگامہ آرائی کی منتظر تھی۔ قومی مفاد کا تقاضا تھا کہ وہ ہنگاموں پر پرامن جدوجہد کو ترجیح دیتی اور قانون کا مقابلہ قانونی اقدامات سے کرتی جیسا کہ تحریک آزادی کے دوران قائداعظم اور بانیان پاکستان نے کرکے دکھایا۔ پاکستان کے استحکام کیلئے آئین اور قانون کی پاسداری کی ضرورت ہے ،ہنگامہ آرائی کی نہیں۔

تازہ ترین