• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کم وبیش 6 سال سے لاحق معاشی پریشانیوں، کمرتوڑ مہنگائی، بالخصوص رواں سال گرمی کے موسم میں مہنگی ترین بجلی سے پیداہونے والی عام آدمی کی حالت غیرہونے کا ادراک کرتے ہوئے بجلی کی قیمتیں کم کرنے کی حکومتی کوششیں رنگ لاتی دکھائی دے رہی ہیں۔قیمتوں میں کمی کے ان اقدامات کا سطحی نہیں بلکہ گہری جڑوں کا حامل ہوناشرط ہے،جس میں آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے سات ارب ڈالر قرضے کے حالیہ معاہدے سے کوئی چیز متصادم نہیں ہونی چاہئے۔آئی پی پیز کی شرائط میں نرمی آنے اور پانچ کمپنیوں سے بجلی خریدنے کے معاہدے ختم ہوجانے سے معیشت پر سے 411ارب روپے کا بوجھ کم ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔جس کے ثمرات بجلی کی قیمتوں میں نمایاںکمی کی صورت میںصارفین تک پہنچنا یقینی دکھائی دے رہا ہے۔جمعرات کے روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیرتوانائی اور وزیراعظم ٹاسک فورس کے سربراہ سرداراویس لغاری نے عام دنوں میںبجلی کےنرخ 8سے10روپے کے علاوہ سردی کے سیزن میں 20سے30روپے فی یونٹ تک کم کیے جانے کا عندیہ دیاہے۔قبل ازیں وزیراعظم شہبازشریف نے پانچ آئی پی پیز ،جن کے ساتھ گزشتہ چند ہفتوں سے ٹاسک فورس کی بات چیت چل رہی تھی،وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ان کے ساتھ ختم ہونے والے معاہدے پر دستخط کیے۔دوران اجلاس انھوں نے مژدہ سنایا کہ دیگرآئی پی پیز کے ساتھ بعض معاہدوں پر نظرثانی کرکے بجلی کے ٹیرف میں مزید کمی لائی جائے گی۔وزیراعظم کے بقول عوام نے اس عرصہ میں جو قربانی دی،ان کی مشکلات کے ازالے کا وقت آگیا ہے۔مہنگی بجلی کا جادو توڑنے کیلئے ٹاسک فورس کے قیام سے لے کر اب تک ، اس سے متعلق ہونے والے اجلاسوں میںوزیراعظم ترسیلی نظام میں بہتری،لائن لاسز کے خاتمے اور خصوصاً بجلی چوری ختم کرنے کی بارہا ہدایات دے چکے ہیں،جن پر بلاتاخیراور موثر عملدرآمد ہونا چاہئے۔قبل ازیں 2013تا2018کی نواز شریف حکومت میںبجلی چوری کے خلاف قانون سازی بھی کی گئی تھی ،اگر اس پر موثر عملدرآمد کیا جاتا تو ملک اب تک بجلی چوری سے پاک ہوچکا ہوتا۔بدقسمتی یہ کہ کسی بھی جگہ بجلی چوری کے خلاف چلائی جانے والی مہم اس کے مکمل خاتمے تک انجام کو نہیں پہنچی اور نیک نیتی کے ساتھ بل ادا کرنے والے صارفین کوبھاری بھرکم محصولات کے ساتھ اضافی صورت میںلائن لاسز بھی اداکرنےپڑرہے ہیں۔موجودہ حالات میں آئی پی پیز مہنگی بجلی کا استعارہ بن چکے ہیں،حالانکہ یہ کمپنیاں تیل وگیس جیسے مہنگے ترین ذرائع چھوڑ کر سستے وسائل سے بھی بجلی پیدا کرسکتی ہیں۔بصورت دیگر حکومت پانی، ہوا، سورج اور ایٹمی توانائی پر انحصار کرکے پیداوار میں خاطرخوا اضافہ کرسکتی ہےجبکہ مقامی کوئلے کے ذخائرسے ایک سو سال تک نہایت ارزاں بجلی پیدا ہوسکتی ہے ۔ چشمہ کے مقام پر چین کی مدد سے 1200میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا گزشتہ ماہ منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔آنے والے پانچ چھ برسوں میں جہاںاس کے سمیت داسو،دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کی مرحلہ وار تعمیر ممکن دکھائی دے رہی ہے،اس کے علاوہ 2006میں صرف آزاد کشمیر میں 1849میگاواٹ کے 9ہائیڈرل بجلی منصوبوں کی منظوری دی گئی تھی لیکن ان کی تعمیرآگے نہ بڑھ سکی۔969میگاواٹ کا حامل نیلم جہلم بجلی گھرپیداوارنہیں دےرہا۔حکومت کو یہ منصوبے شروع کرنے چاہئیں۔اگرچہ گرمی کاموجودہ سیزن ختم ہوچکا ہے لیکن اگلے برس آنے والے موسم کے تناظر میں شدید گرمی کے ستائے غریب اور عام آدمی کو اس دن کا انتظار ہے جب حکومت بجلی کی بڑھی ہوئی قیمتیں بمع محصولات واپس لینے کا اعلان کرے گی۔

تازہ ترین