بھارت کی شوگر انڈسٹری میں خواتین کے بدترین استحصال پر سیاست دان خاموش کیوں ہیں وجہ سامنے آگئی۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھارتی ریاست مہاراشٹر میں بچوں سے مشقت اور قرض کے بدلے کام لینے جیسے ظالمانہ سلوک کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں مگر 2019 میں ریاستی قانون ساز نیلم گورہے Neelam Gorhe نے جبر کے ایک نئے طریقے کی نشاندہی کی کہ خواتین ورکرز کے رحم آپریشن کے ذریعے کاٹنے کے واقعات کی شرح بڑھ رہی ہے۔
نیلم گورہے نےاپنی رپورٹ ریاستی وزارت صحت کو پیش کی اور علاقائی شوگر ریگولیٹر کو بھی الرٹ کیا لیکن کوئی شنوائی نہ ہوسکی، زیادہ تر اراکین پارلیمنٹ نے رپورٹ کو یا تو نظرانداز کیا یا پھر پڑھ کر سائیڈ پر رکھ دی۔
انہوں نے مزید تحقیقات کرائیں نہ ہی کوئی قانون پاس کیا، نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی ریاست کی شوگر انڈسٹری میں خواتین اور بچےظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔
نیویارک ٹائمز اور فلر پروجیکٹ The Fuller Project نے عدم دلچسپی کی وجوہات جاننے کے لیے ایک اور تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ریاست میں زیادہ تر شوگر ملیں سیاست دانوں کی ملکیت ہیں۔
ان میں 21 ریاستی قانون ساز، 4 اراکین قومی پارلیمنٹ، 5 حکومتی وزیر اور 50 کے قریب سابقہ سرکاری حکام شامل ہیں۔
شوگر مل مالکان کا کانگریس، بی جے پی سمیت حکومت اور اپوزیشن میں شامل تمام پارٹیوں سے تعلق ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ بےشمار دیگر ملوں کے سیاستدانوں اور قانون سازوں سے کاروباری اور خاندانی تعلقات بھی ہیں، اس کا مطلب ہے کہ بہت سے ایسے کیسز ہیں جن میں ورکرز کی حفاظت کے ذمےدار افراد ان کے استحصال سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔