عالمی دہشت گردنیتن یاہو جس تواتر کے ساتھ مسلمانوں کا خون بہا رہا ہےعالمی برادری کی خاموشی اس کو مزید حوصلہ دے رہی ہے۔ امریکہ کی شہہ پر مسلمان ملکو ں پر آتش و آہن برسانے والے اسرائیل نے جس طر ح فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کا عز م کیا ہوا ہےاس پرنہ صرف مغربی اقوام بلکہ عالم اسلام بھی چپ سادھے ہوئے ہیں۔ ستاون مسلم ممالک کے حکمران اپنی آنکھوں کے سامنے گزشتہ سال سے پینتالیس ہزار مسلمانوں کو مرتا دیکھ چکے ہیں جن میں بیس ہزار بچے بھی شامل ہیں اور تقریباً ایک لاکھ افراد زخمی ہیں۔ ہسپتال، سکول، مساجد اور گھروں کو تباہ کر کے غزہ کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔ غزہ کے بعد لبنان کی باری بھی آ چکی ہے۔ وہاں حزب اللہ کی قیادت کو بمباری کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا ہے۔ حسن نصراللہ سمیت تما م قیادت شہید ہو چکی ہے مگر مسلمان ممالک میں سے سوائے ایران کے کسی نے بھی کسی قسم کے رد عمل کا مظاہرہ نہیں کیا، حد تو یہ ہے کہ او آئی سی بھی ایک وزارتی اجلا س منعقد کرنے کے بعد لمبی تان کر سو گئی ہے۔اسرائیل کو اگر مسلمانوں کا خون بہانے سے نہ روکا گیا تو وہ بڑھتا بڑھتا سب کو ہڑپ کر جائے گا۔ مغربی اقوام کی اپنی حدود و قیود ہیں۔ ان کا اسلحہ فروخت ہو رہا ہے۔ ان کی معیشتیں ترقی کر رہی ہیں۔ ان کے عوام کی فلاح کا ذریعہ پیدا ہو گیا ہے۔ امریکی حکمرانوں کو اپنے آنے والے انتخابات میں جیت کی فکر ہے اور امریکہ اپنے ملک کے اندر مضبوط یہودی لابی کو ناراض کرنے کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں۔ نیتن یاہو کے حالیہ دورہ امریکہ میں اس کا موجودہ امریکی انتظامیہ کے ساتھ بے اعتنائی پر مبنی رویہ سفارتی سطح پر ہر جگہ نوٹ کیا گیا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن اس کے سامنے بے بس نظر آئےاور اپنی کوئی بھی بات منوانے میں ناکام رہے۔ نیتن یاہو کا ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف جھکائو عیاں تھا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ موجودہ صدر کا کوئی بھی منصوبہ ماننے کیلئے تیا ر نہیں ہے۔
دنیا بھر کے عوام نے اپنی حکومتوں کے بر عکس فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف بھر پور آواز اٹھائی ہے۔ لندن، نیو یارک، کراچی، تہران، برسلز وغیر ہ میں عوام سڑکوں پر آئے اور اسرائیلی مظالم کے خلاف بھر پور مظاہرے کئے۔ جماعت اسلامی نے اپنے متحرک امیر حافظ نعیم الرحمٰن کی قیادت میں نہ صرف عوامی ریلیوں کا اہتمام کیا بلکہ سیاسی قیادت کو بھی فلسطین اور لبنان کے مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف اکٹھا کیا، جس کی وجہ سے پریذیڈینسی میں 7اکتوبر کو تمام سیاسی جماعتوں کی گول میز کانفرنس منعقد ہوئی اور تحریک انصاف کے سوا تمام سیاسی قیادت نے یک زبان ہو کر
اسرئیلی مظالم کی مذمت کی بلکہ فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ بھی کیا۔ لیکن کیا یہ کافی ہے یقیناً نہیں مسلمان ملک کے طور پر ہمیں مسلمانوں کی حفاظت کے لئے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کی حرمت وغیرت کو اغیار کے ہاتھو ں تباہ ہوتے دیکھ کر ہر مسلمان کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے توان خاموش مسلم ملکوں کے حکمرانوں کو رات کو چین کی نیند کیسے آ رہی ہے؟
آج غزہ، فلسطین، لبنان اور شام جس آگ میں جل رہے ہیں وہ آگ بڑھتے بڑھتے دوسرے ملکوں تک نہ پھیل جائے، ایران نےحسن نصراللہ کی شہادت کا بدلہ اسرائیل پر میزائل داغ کر لیا ہے۔ ایران اس وقت لبنانی مسلمانوں کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے پر عزم ہے۔ تاہم اگرباقی مسلم ممالک خصوصاً عرب ممالک نے اسرئیل کے خلاف صف بندی نہ کی توان کا حال بھی غزہ اور لبنان جیسا نہ ہو جائے۔ عرب ممالک کو فوری طور پر اپنی فضا غیر ملکی لڑاکا جہازوں کے استعمال کے لئے بند کر دینی چاہیے۔ کیونکہ اگر اسرائیل ایران پر حملہ کر تا ہے تو وہ عرب ممالک کی فضا استعمال کرے گا۔ جس کی اس کو قطعاً اجازت نہیں ملنی چاہئے۔ عرب اور دوسرے ممالک کو اپنے اختلافات بالائے طا ق رکھتے ہوئے فوراً متحد ہو جانا چاہیے۔ کیونکہ اسرائیل کسی کا دوست نہیں ہو سکتا۔ بھیڑیئے کے منہ کو خون لگ جائے تو وہ پھر ہر جانور پرحملہ کرتا ہے۔ اسرائیل اس وقت ایک بھیڑیئے کی طرح ہر عرب اور مسلم ملک کو ٹارگٹ بنانے کے در پے ہے اور یوں لگتا ہے کہ جلد یا بدیرسب کی باری آئے گی لہٰذا عرب و مسلم ممالک اکٹھے نہ ہوئے تو بعد میں پچھتاوے کے سوا کچھ نہ ہاتھ آئے گا۔ بر وقت فیصلے کی ضرورت ہے۔ اسرائیلی رویئے کا جائزہ اس طرح لیا جاسکتا ہے کہ اس نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو نا پسندیدہ شخصیت قرار دے دیا ہے تاکہ وہ اسرائیل آکراس کے مظالم کا غزہ اور دوسرے علاقوں میں جا کر ذاتی طور پر مشاہدہ نہ کر سکیں۔ یقیناً اقوام متحدہ کے سیکر ٹری جنرل کی رپورٹ جب عالمی ادارے کے فورم پر پیش کی جائے گی تو سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی میں اسرائیل مظالم حقیقی طور پر آشکار ہو جائیں گے۔ اس رپورٹ کی حقیقت کو جھٹلایا بھی نہ جا سکے گا لہٰذا نیتن یاہو کی حکومت نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر ان کے لئے اسرائیل آنے کے دروازے بند کر دیئے ہیں۔
آج عالم اسلام کو فلسطینی مسلمانوں کو نسل کشی سے بچانا ہے۔ فلسطین اور غزہ کسی سلطان صلاح الدین ایوبی کی آمد کے منتظر ہیں۔ اسرائیلی عزائم کے پھیلائو کو روکنے کے لئے بین الاقوامی برادری کو اپنا رول فوراً ادا کرنا چاہئے۔ اگر یہ جنگ لبنان کی سرحدیں پار کرتی ہے تو پھر اس کو تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یو کرائن کی جنگ سے تنگ روس یورپ کو دھمکا رہا ہےاس طرف سے یو کرائن کی جنگ پھیلی اور ادھر سے اسرائیل نے حدود کو پار کیا تو پھر ہر سو لاشیں، آگ، زخمیوں کے کراہنے کی آوازیں اور عمارتوں کا ملبہ ہو گا۔