حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن جس سے چاہوں ہاتھ ملاؤں میری مرضی پھر آنکھوں سے دھوکا کھاؤں میری مرضی تیرے شہر میں اپنی بھی پہچان ہے کافی کچھ دن ٹھیروں، آؤں جاؤں، میری مرضی وہ جب بھی کچھ کہہ دیں، کوئی تبلیغ کریں، کوئی نصیحت کریں، واعظ کریں تو جانے کیوں انہیں بھانت بھانت کے خطابات سے نوازا جاتا ہے۔ یہ روایت ہمارے یہاں برسوں سے چلی آرہی ہے کہ جہاں کسی عالم دین کا ڈنکا بجنا شروع ہوا بس وہیں پر طنز کے تیر چاروں طرف سے برسنا شروع! بھئی یہ مذہبی اسکالر اور سیاست دان ایک ہی نقطے پر کیوں نظر آتے ہیں لوگوں کو؟ ڈاکٹر ذاکر نائیک پاکستان کے دورے پر کیا آئے کہ لوگوں نے انہیں ان کی چھوٹی بڑی کوتاہی کو آنکھ کا شہتیر جانا۔ ان کی ایسی ایسی باتوں کو پکڑا جو صریحاً اسلامی دائرے سے باہر نہ تھیں۔ ایسا تو ان کے ساتھ کہیں بھی نہیں ہوا جیسا ہمارے یہاں ہوا کہ ماحول کہیں کہیں تو یوں لگا کہ جیسے عوام زیادہ ہی باشعور ہوگئے اور اقبال کے ملا والے فلسفے کو پڑھ ڈالا کہ جیسے اقبال نے ملا کی تعریف کچھ یوں کی کہ ’’متعصب، تنگ نظر، کوتاہ اندیش و واعظ ہے‘‘ علامہ اقبال نے انہیں کم عمل بھی کہا، لیکن ہم ملاؤں کو ایسا کہہ سکتے ہیں کہ وہ کبھی کبھی خطرۂ ایمان ثابت ہوتے ہیں۔ ہم اسلامی علماء کو ایسا نہیں کہہ سکتے اور ڈاکٹر ذاکر نائیک کو تو بالکل بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ تو بہت عظیم مفکر قرآن، بائبل، توریت اور سنکسرت و گیتا پر ان کی ریسرچ قابل تعریف ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کئی بار نامور عیسائی اسکالرز، ہند اور دوسرے مذاہب کے اسکالرز سے مناظرے کئی کئی گھنٹوں کرتے رہے ہیں۔ انہیں مناظروں کو دیکھتے ہوئے ہزاروں لوگ مسلمان ہوتے رہےہیں۔ پاکستان کے بہت سے عوام نے ہلکی سی غلطیاں بھی ڈاکٹر ذاکر نائیک کی نوٹ کی ہیں جنہیں آنکھ کا شہتیر جان کر ہرزہ سرائی کی گئی ۔مثلاً جب انہوں نے یتیم خانے کی بچیوں کو ایک انوکھی مثال سے ثابت کیا کہ وہ نامحرم ہیں اور انہیں چھونا بھی غلط ترین ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ چھونے کو کس نے کہا تھا؟ ذاکر نائیک کی مادری زبان گجراتی ہے۔ وہ زیادہ تر انگلش اور گجراتی زبان میں یا پھر بنگالی زبان میں بھی تبلیغ کرتے رہے ہیں۔ اس لئے بہت سے لوگ انہیں سمجھ نہیں پاتے اورذاکرنائیک شاید کچھ بھلے کی بات کرتے ہیں مگر سمجھنے میں لوگوں کو غلطی لگتی ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اردو زبان حال ہی میں سیکھی ہے ویسے تو اردو زبان مشکل بالکل بھی نہیں ہے اگر آپ کو بنگالی اور گجراتی آتی ہے تو ہندی زبان بولنا مشکل نہیں ہے اور اگر ہندی بولنے میں دقت نہیں تو اردو بولنا یا سمجھنا تو بالکل بھی مشکل نہیں ہے۔ اب تمام ملتی جلتی زبانیں بولنا اور سمجھنے کا دارومدار حالات پر ہے کہ آپ زیادہ تر کون سی زبان کے ماحول میں اور زیراثر رہتے ہیں۔ پھر وہی زبان آپ کیلئے آسان ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نہایت پراعتماد شخصیت ہیں وہ بات کی تہہ تک پہنچے یا نہ پہنچیں مگر جواب نہایت مدلل طریقے سے دے کر چپ کرانا جانتے ہیں اسی لئے کہ ان کا اپنا موقف ہوتا ہے کوئی کچھ بھی سوال کرے تو ان کا جواب ایسا ہوتا ہے کہ ’’جس سے چاہوں ہاتھ ملاؤں میری مرضی، جو بھی کہوں میری مرضی‘‘! ذاکر نائیک سے سوال کیا گیا کہ آپ نے ملائیشیا میں کیوں ہجرت کی؟ تو ان کا جواب تھا کہ وہاں کے مسلمان کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں! ہیں؟ تو کیا پاکستانی نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں یعنی بقول پاکستانی قوم کے کہ وہ اب زیادہ باشعور ہوگئے ہیں۔ اگر نہ ہوتے تو ذاکر نائیک کی ایک ایک بات کو نوٹس نہ کرتے اور پھر سوال جواب نہ پوچھتے۔ بقول پاکستانی قوم کے وہ باشعور تو ہیں مگر ان کے اظہار پر پابندی ہے جوکہ ملائیشیا کے عوام پر نہیں ہے۔ وہاں سیاسی کھلبلی بھی نہیں ہے، پاکستانی قوم نہایت مہمان نواز ہے اور امید ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک یہاں سے خوش ہو کر جائیں گے اور دنیا کو جاکر بتائیں گے کہ پاکستانی سب سے زیادہ مخلص و مہمان نواز ہیں۔ ورنہ تو ڈاکٹر صاحب برا مان کر یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ منت سے بھی اگر کوئی بلوائیں گا کبھی میں پھر سےاس وطن میں نہیں آئیں گا کبھی نائک یہاں سے جانے میں جلدی کریں گا میں جائیں گا تو پلٹ کے نہیں آئیں گا کبھی اتنی مدلل گفتگو کرنے والے اسکالر کو بھارتی حکومت معلوم نہیں کیوں غدار وطن کہتی ہے۔ خیر بھارت تو ان کی مقبولیت سے ڈرتا ہے کہ لوگ دھڑا دھڑ مسلمان نہ ہوجائیں بھارت کے بہت سے مسلمان علماء کو بھی ڈاکٹر ذاکرنائیک سے اختلاف ہے۔ وہ یہ تو کہتے ہیں کہ ڈاکٹر ذاکرنائیک حقیقتاً ایک کتاب ہیں جنہیں خوب پڑھنا چاہئے مگر پھر انہیں یہ اختلاف بھی ہے کہ فسق و فجور کے شعائر کی ہیئت و وضع قطع کی جو تصویر مسلمانوں کے دل میں بیٹھی ہے اسے کھرچ دینا بھی غلط عمل ہے۔ شریعت مطہرہ کے احکام و مسائل، عقائد و اعمال کی تحقیق کرنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کے سلسلہ میں عام مسلمانوں کا رشتہ ان سےٹوٹ کر ڈاکٹر ذاکرنائیک جیسے علماء سے جڑ گیا ہے۔ واللہ اعلم کیا درست ہے کون درست ہے؟ یہ سب وہی جانتا ہے مگر یہ کہنا پڑےگا کہ مختلف عقائد نے بھی عام لوگوں کے ذہن میں کئی سوال اٹھا دیئے ہیں۔