تفہیم المسائل
سوال: زید نے بکر کو کچھ رقم یہ کہہ کر دی :’’ یہ رقم تمہارے بیٹے کی تعلیم کے لیے ہے، اپنے بیٹے کی تعلیم اور رہائش پر خرچ کرنا اوریہ زکوٰۃ کی رقم نہیں ہے۔ زید بہ حیثیت وکیل وہ رقم بیٹے کی تعلیم اور متعلقہ امور میں خرچ کرتارہا ، یہ سلسلہ سالوں سے اب تک جاری ہے ، بیٹا بالغ ہے ۔معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا وہ رقم قابلِ زکوٰۃ ہے ، اگر ہے تو زکوٰۃکون اداکرے گا ؟،(سید سفیان علی شاہ، کراچی)
جواب: اگر وہ رقم نصاب کو پہنچتی ہے (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے مساوی ہے) اور سال کے شروع اور آخر میں نصاب مکمل رہتا ہے ،تو زکوٰۃ کے وجوب کی شرائط میں سے ایک شرط پائی گئی، لہٰذا اس رقم پر زکوٰۃ اداکی جائے گی ۔ البتہ محلِ نظر یہ ہے کہ اس زکوٰۃ کی ادائی کس کے ذمے لازم ہوگی ؟، زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے اُس رقم کا مالک ہونا ضروری ہے ،وہ رقم بکر کے قبضے میں ضرور ہے ،لیکن مِلک نہیں ہے۔
علامہ نظام الدینؒ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ (اور وجوبِ زکوٰۃ کی شرائط میں سے): مال نصاب کی مقدار کو پہنچنا ہے ،پس جو مال نصاب سے کم ہوگا ، اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی ، ’’عینی شرح الکنز ‘‘ میں اسی طرح ہے ‘‘۔مزید لکھتے ہیں: ترجمہ:’’مکمل طورپر مال کا مالک ہو ، مکمل ملکیت یہ ہے کہ مِلک بھی ہو اور قبضہ بھی ہو ۔اگر مِلک ہو اور قبضہ نہ ہو ،جیسے: مہر کی رقم قبضے سے پہلے یا قبضہ ہو ، مِلک نہ ہو جیسے کہ مکاتب کی مِلک اور مقروض کی مِلک ،ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی ، ’’سراج الوہاج ‘‘ میں اسی طرح ہے،(فتاویٰ عالمگیری ،جلد1، ص: 172)‘‘ ۔
جس قمری تاریخ کو بکرکابیٹا پہلی بار صاحبِ نصاب ہوا ،آئندہ سال وہ اس کی زکوٰۃ کی ادائیگی کی تاریخ ہے ، سال پورا ہونے پر اس تاریخ میں اس پر زکوٰۃ واجب ہوجائے گی۔ چونکہ اس رقم کا مالک بکر کا بیٹا ہے، زید نے یہ رقم بکر کے بیٹے کے تعلیمی اوررہائش کے اخراجات کے لیے دی ہے، پورے سال فیسوں کی ادائی بھی کی جاتی ہوگی ، اخراجات کے بعد اگر سال کے شروع اور آخر میں نصاب برقرار رہتا ہے، تو زکوٰۃ واجب ہے، کیونکہ آپ کے بیان کے مطابق بکر کا بیٹا عاقل وبالغ ہے، اسی حساب سے تمام برسوں کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔ امام اہلسنّت امام احمد رضا قادری ؒ لکھتے ہیں:’’ روپیہ کہیں جمع ہو، کسی کے پاس امانت ہو ،مطلقاً اس پر زکوٰۃ واجب ہے ،(فتاویٰ رضویہ ،جلد: 10، ص:141)‘‘۔