تفہیم المسائل
سوال: حج سے پہلے مدینہ منورہ میں آٹھ دن قیام کیا یا حج کے بعد تین دن مدینہ میں قیام کیا، جماعت سے نماز نہ ملنے کی صورت میں اکیلے نماز پڑھی یا دوسرے مسافروں کے ساتھ مل کرجماعت کی، تو قصر کریں گے یا پوری نماز پڑھی جائے گی ؟،( محمد بلال احمد ، کراچی)
جواب: مسافر نے کسی مقام پر15دن قیام کی نیت کی ہوتو وہ مقیم ہوجائے گا اور پوری نماز پڑھے گا، اگر پندرہ دن سے کم قیام کا ارادہ ہے تو جب اکیلے نماز پڑھے یا کسی مسافر امام کی اقتدا میں نماز اداکرے تو وہ اور جماعت میں شامل دیگر مسافر قصر کریں گے ،تنویرالابصار مع الدرالمختار میں ہے : ترجمہ: ’’ (مسافر کے لیے) چار فرض کے بجائے دو رکعت (فرض ) پڑھنا واجب ہے ، ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے: ’’ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کی زبانِ مبارک سے مقیم کی نماز چار رکعات اور مسافر کی دو رکعت کو فرض قرار دیاہے ،(ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ، جلد2، ص:123)‘‘۔
البتہ مسافر جب مقیم امام کے پیچھے باجماعت نماز ادا کرے گا تو پوری نماز پڑھے گا ، خواہ تکبیرِ اَولیٰ سے شامل ہوا ہو یا درمیان میں اقتداء کی ہو، حدیث پاک میں ہے :ترجمہ:’’امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اُس کی اقتداء کی جائے ،(صحیح بخاری:688)‘‘۔
مسافر کے لیے مقیم امام کی اقتدا میں نماز قصر کرنا جائز نہیں، تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے: ترجمہ:’’ جہاں تک مسافر کا مقیم امام کی اقتدا میں نماز پڑھنے کا مسئلہ ہے ،تو اس کا حکم یہ ہے کہ یہ اقتدا وقت میں صحیح ہے اور وہ اپنی مکمل نماز ادا کرے گا ،(حاشیہ ابن عابدین شامی ،جلد4، ص:643، دمشق)‘‘۔
مزید لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اوروقت گزرنے کے بعد مقیم کے پیچھے مسافر کی اقتدا درست نہیں ،ان نمازوں میں جن میں سفرکی وجہ سے تغیر ہوتا ہے، جیسے ظہر کی نماز خواہ مقیم نے وقت میں یا وقت کے بعد تکبیر کہی، پھر وقت نکل گیا تو مسافر نے اقتداء کی، بلکہ اگر وقت میں تکبیر کہی پھر وقت نکل گیا تو صحیح ہے اور مسافر امام کی اتباع کے سبب اپنی نماز کو مکمل کرے ، (حاشیہ ابن عابدین شامی ،جلد3،ص:599 دمشق)‘‘۔
اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ یعنی وقت گزرنے کے بعد مسافر کا مقیم کی اقتدا کرنا صحیح نہیں ہے۔ اس کابیان یہ ہے کہ مسافر کی نماز مکمل کرنے کے قابل ہے جب تک وقت باقی ہے ،اس طرح کہ مسافر اقامت کی نیت کرے یا وہ مقیم کی اقتدا کرلے ۔پس وہ اپنے امام کے تابع ہوگا اور وہ سبب کے بقا کی وجہ سے نماز کو مکمل کرے گا اورسبب وقت ہے۔
جب وقت نکل جائے گا تو مسافر کے ذمہ دورکعتیں ہی مقرر ہوگئیں ۔پس مقیم ہونے یا اس کے علاوہ کسی بھی طرح اسے نماز کو مکمل کرنا ممکن نہیں ہے،حتّٰی کہ وہ اپنے شہر میں اس نماز کی قضا دورکعتیں ہی کرے گا اورجب وقت گزرنے کے بعد مقیم کی اقتدا کرے گا تو اس نے خواہ وقت گزرنے کے بعد یا وقت کے اندر اقتداکی ہو، صحیح نہیں ہے ، (حاشیہ ابن عابدین شامی، جلد3،ص:599 دمشق)‘‘۔
قصر کا مطلب یہ ہے کہ ہر چار رکعت والی فرض نماز(ظہر ، عصر اور عشاء) کو دو رکعت کر کے پڑھا جائے گا، مغرب اور وتر کی نماز تین رکعت ہی پڑھی جائیں گی۔ سنتوں کا حکم یہ ہے کہ اگر کسی جگہ ٹھہرے ہوئے ہوں اور اطمینان کی حالت ہو تو سنتیں پڑھ لینا افضل ہے اور اگر جلدی ہے یا سفر جاری ہے تو چھوڑ دینے میں بھی کوئی حرج نہیں، البتہ چونکہ فجر کی سنتوں کے متعلق بہت زیادہ تاکید آئی ہے، اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ حالتِ سفر میں بھی نہ چھوٹنے پائیں، لیکن اگر نہیں پڑھ سکا، تو گنہگار نہیں ہوگا، واللہ اعلم بالصواب۔