• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا محمد راشد شفیع

حُسنِ اخلاق کی اہمیت کسی سے مخفی نہیں ہے، یہ وہ قابل قدر جوہر ہے جو انسانی زندگی پر بڑے گہرے اثرات مرتّب کر سکتا ہے اور اس کی وجہ سے نفرت محبت میں تبدیل ہو جاتی ہے اور بدترین دشمن بھی انسان کا گرویدہ بن جاتا ہے، حسنِ اخلاق صرف اس چیز کا نام نہیں ہے کہ کسی انسان سے خندہ پیشانی سے پیش آیا جائے، بلکہ یہ اپنے اندر وسیع مفہوم رکھتا ہے، چناںچہ قرابت داروں کے ساتھ صلۂ رحمی، ماں باپ کی فرماں برداری، نرم گفتگو،حلم وبُردباری، عفوودرگزر، بڑوں کا ادب، چھوٹوں پر شفقت، دیانت وامانت،عہد کی پاس داری، مصائب پر صبر، نعمتوں کا شکر، حقوق اللہ اور حقوق العبادکی ادائیگی، بھائی چارہ، ایک دوسرے کی جان،مال،عزت وآبروکاتحفظ، باہمی ہمدردی وغم خواری، ایثارکاجذبہ یہ سب حُسنِ اخلاق کے زمرے میں آتاہے ،بلا شبہ یہ انسان کی زندگی کا قیمتی اثاثہ اور بیش بہا سرمایہ ہے۔

چناںچہ اللہ تبارک و تعالیٰ قران کریم میں نبی کریم ﷺ کے اخلاق کے بارے میں سورۃ القلم میں ارشاد فرماتا ہے:’’وإِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘ بےشک آپ ﷺاخلاق حسنہ کے اعلیٰ پیمانے پر ہیں ۔ ( بیان القرآن)

مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد شفیع ؒ اپنی تفسیر معارف القرآن میں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں: حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا :خلق سے مراد دین عظیم ہے کہ اللہ کے نزدیک دین اسلام سے زیادہ کوئی محبوب دین نہیں ہے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : آپﷺ کا خلق قرآن ہے یعنی قرآن کریم جن اعلیٰ اعمال واخلاق کی تعلیم دیتا ہے۔

آپﷺ ان سب کا عملی نمونہ ہیں ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا : خلق عظیم سے مراد آداب القرآن ہیں یعنی وہ آداب جو قرآن نے سکھائے ہیں حاصل سب کا تقریباً ایک ہی ہے ۔ رسول کریم ﷺکے وجود مسعود میں حق تعالیٰ نے تمام ہی اخلاق فاضلہ بدرجہ کمال جمع فرما دیے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بعثتُ لاتّمم مکارم الاخلاق یعنی مجھے اس کام کے لیے بھیجا گیا ہے کہ میں اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کروں۔(معارف القرآن،ج8،ص532)

دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:ترجمہ : اے محمدﷺ آپ معافی کو اختیار کیجیے، بھلی باتوں کا حکم کیجیے اور جاہلوں سے منہ پھیر لیجیے۔(سورۃالاعراف:199) ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ترجمہ : تو آپ (ﷺ) انہیں معاف کیجیے اور درگزر سے کام لیجیے۔ بےشک اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔(سورۃالمائدہ:13)

چنانچہ نبی کریم ﷺاخلاق کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز ہیں، اور آپ ﷺکے اسی حسن اخلاق اور تربیت کا نتیجہ تھا کہ ایک دوسرے کی جان لینے والے نبی کریم ﷺپر جان دینے والے بن گئے۔

خودنہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے

کیا نظر تھی کہ جس نے مُردوں کو مسیحاکردیا

ذیل میں نبی اکرم ﷺکے حسن اخلاق کے چند واقعات ہدیہ قارئین ہیں۔

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے دس برس رسول اللہ ﷺکی خدمت کی۔ آنحضرت ﷺنے کبھی مجھے اُف تک نہیں کہا اور میرے کسی کام پر یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کیوں کیا اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا۔ بلاشبہ آنحضورﷺلوگوں میں سب سے زیادہ محاسن اخلاق کے حامل تھے۔(بخاری ومسلم)

حضرت مسروق نے بیان کیا کہ جب حضرت معاویہؓکے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ کوفہ تشریف لائے تو ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺکا ذکر کیا اور بتایا کہ نبی کریم ﷺبدگو نہ تھے اور نہ آپﷺ بدزبان تھے اور انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ آپ ﷺنے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ آدمی ہے، جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔(بخاری،کتاب الادب)

حضرت عبداللہ بن عباس ؓنےبیان کیا کہ رسول اللہ ﷺسب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان کے مہینے میں تو سب دنوں سے زیادہ سخاوت کرتے تھے۔ جب حضرت ابوذر غفاری ؓ کو نبی کریم ﷺکی پیغمبری کی خبر ملی تو انہوں نے اپنے بھائی انس سے کہا کہ وادی مکہ کی طرف جاؤ اور اس شخص کی باتیں سن کر آؤ۔ جب وہ واپس آئے تو ابوذر سے کہا کہ میں نے دیکھا کہ وہ صاحب تو اچھے اخلاق کا حکم دیتے ہیں۔(بخاری،باب حسن الخلق)

حضرت مسروق نے بیان کیا کہ ہم عبداللہ بن عمروؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، وہ ہم سے باتیں کر رہے تھے اسی دوران انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنہ بدگو تھے نہ بد زبانی کرتے تھے۔ بلکہ آپ ﷺفرمایا کرتے تھے کہ تم میں سب سے زیادہ بہتر وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔(بخاری،باب حسن الخلق)

بلاشبہ، نبی اکرم ﷺکی ذات بابرکات ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے، اور آپ ﷺکے اسوۂ حسنہ کو اپنانا ہر مسلمان پر ضروری ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے میری اطاعت کی، سو اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی ،سو اس نے اللہ عزّوجل کی نافرمانی کی۔‘‘ ( متفق علیہ) آپ ﷺکی تعلیمات ہم سب کے لیے یہی ہیں کہ ہم حسنِ اخلاق کی سیرت کو اپنائیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطافرمائے۔(آمین)