چکن گونیا ایک ایسا وائرس ہے جو ایک سے دوسرے فرد میں منتقل نہیں ہوتا بلکہ مچھروں کے ذریعے پھیلتا ہے، یہ بیماری اب تک 60 سے زائد ممالک میں دریافت ہو چکی ہے۔
گزشتہ سال عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور وزارتِ صحت نے پاکستان میں چکن گونیا کی موجودگی کی تردید کر دی تھی تاہم کراچی میں گزشتہ کچھ عرصے سے چکن گونیا نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں اور دن بہ دن اس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
گو کہ چکن گونیا سے متاثر مریضوں کی ہلاکت کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے لیکن اس کی علامات کی شدت زیادہ ہو سکتی ہے جبکہ طویل المیعاد بنیادوں پر مختلف منفی اثرات کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔
اس مرض کے علامات میں تیز بخار، جسم میں درد، تھکن، متلی کی شکایت اور جسم پر سرخ نشان شامل ہیں۔
بہت سے مریض مکمل طور پر شفایاب ہو جاتے ہیں، مگر کچھ کیسز میں جوڑوں کا درد کچھ ہفتے یا مہینوں بعد جاتا ہے۔
بزرگوں میں یہ مرض بعض دفعہ پیچیدگیاں اختیار کر لیتا ہے جو ان کی موت کا سبب بن سکتا ہے۔
اس وائرس سے اموات کی شرح محض 0.1 فیصد ہے مگر علامات بہت تکلیف دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔
امریکی ویب سائٹ سینٹرز فار ڈیزیز کنڑول اینڈ پریونشن کی رپورٹ کے مطابق چکن گونیا کو روکنے یا اس کا علاج کرنے کے لیے اب تک کوئی دوا نہیں بنائی جا سکی تاہم اس حوالے سے ایک ویکسین کی آزمائش کی جا رہی ہے۔
اس بیماری کے علاج کے لیے کوئی مخصوص دوا نہ ہونے کے سبب اس کی علامات کا علاج کرنا ضروری ہے۔
بخار اور جوڑوں کی تکلیف میں کمی کے لیے ڈاکٹر مختلف ادویات تجویز کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ چکن گونیا سے بچاؤ کے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کرتے ہوئے خود کو مچھروں سے محفوظ رکھیں۔
اگر کسی کو چکن گونیا ہو چکا ہے تو بیماری کے تقریباً پہلے ہفتے خود کو مچھروں کے کاٹنے سے محفوظ رکھیں۔
بیماری کے پہلے ہفتے کے دوران یہ مرض خون میں موجود ہوتا ہے، جو کسی اور مچھر کے کاٹنے پر اس میں منتقل ہو سکتا ہے اور پھر وہ دیگر افراد میں اس وائرس کو منتقل کر سکتا ہے۔
چکن گونیا کے شکار افراد کو ڈاکٹرز زیادہ سے زیادہ آرام کرنے، پانی کا زیادہ استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، جبکہ پہلے سے کسی بیماری کی دوا کھانے والے مریضوں کو اس بخار کی دوائیں ڈاکٹر سے پوچھ کر کھانی چاہئیں۔