پچھلے 25 برس میں ہمارے عامل صحافیوں کی بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے آ گئی ہے۔ دوسری طرف کچھ صحافیوں کی قسمت ایسی کھلی ہے کہ وہ مشاہرے وغیرہ کے جھنجھٹ سے بے نیاز ہو گئے ہیں۔ رزق میں ایسی کشائش آئی ہے کہ باقاعدگی سے ترقی یافتہ مغربی ممالک میں چھٹیاں وغیرہ مناتے ہیں اور واپسی پر ہمیں یورپ کی صاف ستھری سڑکوں، عالی شان عمارتوں اور خوابناک تفریح گاہوں کے قصے سناتے ہیں۔ درویش کو چند ہزار روپلی میں زندگی گزارنے والے صحافیوں کی غربت پر دکھ ہوتا ہے لیکن آسودہ حال صحافیوں سے حسد نہیں ہوتا۔ غالباً ایسے صحافی پیشہ ورانہ طور پر زیادہ باصلاحیت ہیں اور ہم عصر ملکی صورتحال میں بہتر معاشی حکمت عملی مرتب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ناچیز نے نوجوانی میں بہت سی دنیا دیکھ لی۔ زندگی کے احسانات پر شکرگزار ہے۔ ’رہیں وہ لوگ جو بزم جہاں کی رونق ہیں‘۔ ایک افسوس البتہ ہوتا ہے کہ ہمارے سیاح صحافی ہمیں اپنے سفرنامہ کالموں میں شہری آزادیوں اور روزمرہ آسودگی کی کہانیاں تو سناتے ہیں۔ ان ممالک کے تاریخی ارتقا، سیاسی بندوبست اور معاشی حکمت عملی پر زیادہ بات نہیں کرتے۔ معاشی ترقی غیبی مدد نہیںہوتی۔ اس کے لیے عوام اور رہنمائوں کو امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ آج سے سو برس پہلے دنیا بھر میں جمہوری ممالک کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی۔ ان جمہوری ممالک میں بھی برطانیہ نوآبادیاتی نظام کا سرپرست تھا اور امریکا میں نسل پرست قوانین نافذ تھے۔ عورتوں کو ووٹ کا حق نہیں تھا۔ آج دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں سے نو ممالک میں جمہوری بندوبست قائم ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ عالمی درجہ بندی میں چوبیس ممالک میں مکمل جمہوریت ہے۔ پچاس ممالک میں ناقص جمہوریت پائی جاتی ہے۔ چونتیس ممالک میں جمہوریت اور آمریت کا مخلوط بندوبست ہے۔ تقریباً ساٹھ ممالک میں مطلق العنان آمریت قائم ہے۔ ہمارے بہت سے احباب ان آمریتوں میں سے دو چار مثالیں اٹھا کر ہمیں سمجھاتے ہیں کہ جمہوریت اور معاشی ترقی لازم و ملزوم نہیں۔ اس پر مجھے 1986میں چھپنے والے Ruth Rendell کے ناول Live Flesh کا ایک جملہ یاد آ جاتا ہے۔ ناول کا مرکزی کردارVictor Jennerایک طوائف کا بیٹا تھا جو 1970 میں فرانکو آمریت کے دوران ایک چلتی ہوئی بس میں پیدا ہوا ۔ ایسے بچوں کا جرائم پیشہ ہو جانا متوقع ہوتا ہے۔ وکٹر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ برسوں جیل کاٹنے کے بعد رہا ہو کر قانون پسند زندگی کی طرف لوٹنا چاہا۔ اتفاق سے بیس برس بعد اس کا اپنا بیٹا بھی چلتی ہوئی بس میں پیدا ہوا۔ وکٹر اپنے نوزائیدہ بیٹے کو گود میں اٹھا کر ایک بامعنی جملہ کہتا ہے۔ Spanish People no longer live in fear ۔ یہ جمہوریت کی خوبصورت تعریف ہے۔ جمہوریت میں لوگ خوف میں زندگی نہیں گزارتے۔ انہیں اپنے شہری ہونے پر فخر ہوتا ہے اور وہ خود کو اپنی قوم کی بہتری اور ترقی میں حصے دار اور ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ جمہوری ترقی میں چھوٹے موٹے سیاسی اور معاشی بحران کے باوجود تسلسل پایا جاتا ہے اور کسی انہونی سازش کا دھڑکا نہیں ہوتا۔ یہاں سپین کا کچھ پس منظر بھی بیان ہو جائے۔
انیسویں صدی میں نوآبادیاتی مقبوضات سے محروم ہونے کے بعد اسپین افراتفری کا شکار تھا۔ 1870 کی دہائی میں جمہوریہ (Republic ) قائم کرنے کی کوشش ناکام ہوئی۔ 1931 میں دوبارہ کوشش کی گئی۔ بائیں بازو کی ری پبلکن قوتوں نے انتخاب جیتا لیکن جرمنی، اٹلی، روس، امریکا اور برطانیہ کی عالمی کشمکش میں پھنسا اسپین خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ اسپین کی لڑائی دوسری عالمی جنگ کا پیش لفظ تھی۔ 1939 میں جنرل فرانکو نے جمہوری قوتوں کو شکست دے کر آمریت قائم کر لی۔ خانہ جنگی میں مرنے والوں کی تعداد تقریباً ساڑھے چار لاکھ تھی۔ فرانکو 1975 تک آہنی ہاتھوں سے حکومت کرتا رہا۔ عقوبت خانوں اور سیاسی مخالفین کی موت کے اس دور میں مرنے والوں کی تعداد کا درست اندازہ ممکن نہیں۔ یہ بہرحال طے ہے کہ اسپین کے عوام فرانکو کی آمریت اور نام نہاد بادشاہت کے دو پاٹوں میں پستے اناج کی طرح بے بس تھے۔ فرانکو نے 1969 میں اپنا ایک جانشین بادشاہ مقرر کیا تھا جو خاموشی سے انتظار کرتا رہا۔ نومبر 1975 میں فرانکو کے مرتے ہی بادشاہ Juan Carlos نے جمہوریت کی طرف واپسی کا اعلان کیا۔ اہم بات یہ کہ ا سپین میں تمام سیاسی قوتوں نے جماعتی اختلافات بھلا کر جمہوری بندوبست میں حصہ بننے کا اعلان کیا۔ نصف صدی بعد آج اسپین دنیا کی پندرہویں بڑی معیشت ہے۔ اسپین یورپین یونین کا رکن اور یورپ کی چھٹی بڑی معیشت ہے۔دنیا بھر میں برآمدات کے اعتبار سے اٹھارہویں اور درآمدات میں پندرہویں نمبر پر ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کردہ انسانی ترقی کی درجہ بندی میں اسپین کا نمبر ستائیس ہے۔ کل آبادی پانچ کروڑ ہے اور معیشت کا حجم 1.65 کھرب ڈالر ہے۔ 2007 کے عالمی معاشی بحران میں اسپین پر برا وقت بھی آیا لیکن 2022 میں معیشت کی شرح نمو 5.8 فیصد رہی۔فرانکو کے چھتیس سالہ عہد میں اسپین آمریت کا استعارہ تھا۔ آج اسپین ترقی یافتہ سوشل ڈیموکریسی کا نشان سمجھا جاتا ہے۔ا سپین کی یہ کایا کلپ اپنی نوعیت کی واحد مثال نہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی اور جاپان کی سیاست اور معیشت میں ترقی دیکھئے۔ حالیہ برسوں میں جنوبی کوریا، برازیل ، جنوبی افریقہ، بھارت ، ایتھوپیا اور فلپائن کی ترقی دیکھئے۔ کیا ہماری قسمت میں لکھا ہے کہ ہم کراچی کےمدرسہ کےنیم خواندہ انور شاہ جیسے کندہ ناتراش مجرم کرداروں کے ہاتھوں یرغمال رہیں گے۔ رات بھر موٹر سائیکل چلا کر ماں کی خدمت کرنے والا قلعہ سیف اللہ کا نوجوان ضیا الحق مذہبی کرداروں کے بہیمانہ تشدد کا شکار ہو گا تو اس کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھائے گا۔ ہماری سیاسی جماعتیں مکالمے کی مدد سے مفاہمت کریں گی تو اسے ’مک مکا‘ کا نام دیا جائے گا۔ جمہوریت کے دشمن سازش کریں گے تو اسے ’نیا پاکستان‘ کہا جائے گا۔ ہمارے صحافی دوستوں کو نیلے سمندروں، سرسبز باغات اور روشنیوں میں ڈوبی تفریح گاہوں کی خوشیاں مبارک لیکن خبر میں افواہ اور تجزیے میں خواہش کی ملاوٹ کرنے کی بجائے قوم کو یہ تعلیم بھی دیں کہ جمہوریت آسمانوں سے نہیں اترتی، اسے سیکھنا پڑتا ہے۔