فکر فردا … راجہ اکبرداد خان آکسفورڈ یونیورسٹی کی چانسلر شپ کے لیے عمران خان نے اپنی CV میں ’’اظہار خیال کی آزادی‘‘ کو مرکز بناتے ہوئے گزشتہ زندگی کی تمام کامیابیوں کا تفصیل سے ذکر کیا، مگر یونیورسٹی نے جب امیدواران کی تفصیل میڈیا سے شیئر کی تو عمران خان کا نام فہرست میں موجود نہ تھا۔ روز اول سے ان کی اس خواہش پر دو مختلف نقطہ ہائے نظر تھے۔ ایک طبقہ ان کو ایک مضبوط امیدوار تسلیم کررہا تھا اور دوسرا طبقہ اس کی کوشش کو انہیں دنیا میںRelevent رکھنے کے لیے ایک قدم کا نام دیتا ہے۔ خان کی مشکلات سے پورا پاکستان اور بیرون ملک لوگوں کی بڑی تعداد آگاہ ہے۔ 23اکتوبر کے The Times میں ایک شہ سرخی ’’عمران خان پاکستان کے غیر منظم ماحول کا عکاس ہے‘‘۔ میں اس آرٹیکل کا مصنف جواد اقبال، لکھتا ہے کہ خان نے1970کے دوران آکسفورڈ یونیورسٹی سے مختلف مضامین میں ڈگریاں حاصل کیں، جواد اقبال یونیورسٹی کے اس فیصلہ کو درست سمجھتے ہیں، جس میں عمران خان کے نام کو فائنل ووٹ کے لیے یونیورسٹی حکام نے آگے نہیں بڑھایا۔ وہ اس فیصلہ کی حمایت میں ایک جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ جب خان وزیراعظم تھے تو انہوں نے خواتین کے لباس کے متعلق ایسا کہا تھا کہ خواتین کو اپنے لباس پر توجہ دینی چاہیے، تاکہ مرد ان کی طرف غلط انداز میں توجہ نہ دے سکیں۔ وہ خان کے اس نقطہ نظر کو دوغلا پن کہہ کر قارئین کو یہ یاد دلا رہے ہیں کہ خان کی جوانی کا بہت بڑا حصہ یورپ اور بالخصوص برطانیہ میں گزرا، جہاں انہوں نے مختصر لباس پہننے والی خواتین کے ساتھ کلب لائف گزاری ہے۔ خان کی یہ دلیل کہ وہ اگر چانسلر بن گئے (جو وہ نہیں بن سکے) تو وہ ’’آزادی اظہار خیال‘‘ کے پرچم کو بلند رکھنے کے لیے اپنی بھرپور توانائیاں مرکوز رکھیں گے۔ جواد اقبال پی ٹی آئی چیف کی طرف سے دی گئی یہ یقین دہانی کو بھی تسلیم نہیں کررہے کہ وہ ’’اظہار خیال‘‘ کی آزادی کو یقینی بنائیں گے، کیونکہ جواد کے مطابق اس حوالہ سے ان کا حکومت میں ریکارڈ اچھا نہیں ہے، خان کا اپنے آپ کو چانسلر شپ کے لیے پیش کرنے کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟ خان پر بھرپور تنقید کے بعد اس آرٹیکل کا مصنف تسلیم کرتا ہے کہ عمران خان اپنی قید تنہائی اور مزید کئی مشکلات سے گزر کر بھی آج ایک مقبول سیاست دان ہے۔ وہ ڈیڑھ برس سے قید تنہائی میں ہے اور بہت سے لوگوں کے مطابق وہ اب قصہ دیرینہ بن چکا ہے اور لوگ اسے بھول چکے ہیں۔ خان کے وکلا کے مطابق ان کی تمام سزائیں یا ختم ہوچکی ہیں یا معطل ہیں۔ خان آج کل ایسی شخصیت بن چکے ہیں، جس نے اپنے عقائد اور اصولوں کے تحفظ کے لیے سب کچھ کھو دیا ہے، مگر سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ اپنے آپ کو گاندھی اور منڈیلا طرز کا قائد تصور کرتے ہیں۔ خان2018میں ’’تبدیلی‘‘ کے نام سے اقتدار میں آئے، کیونکہ لوگ پاکستان کی کرپٹ پالیٹیکس سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے، عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے لوگوں کے سامنے دولت کی ’’مساوی تقسیم‘‘ کے خواب بانٹے اور لوگوں کے سامنے ایک زیادہ معتدل معاشرہ قائم کرنے کے منصوبہ جات کی نقشہ کشی کی۔ خان کو اقتدار میں آتے ہی4.45بلین ڈالر کا آئی ایم ا یف سے قرض لینا پڑا۔ لوگوں کی اکثریت کو نئے اور پرانے پاکستان میں کوئی فرق محسوس نہ ہوسکا۔ بین الاقوامی امور پر بھی وہ کوئی نیا وژن نہ پیش کرسکے۔ ان کی کمزور حکومت کا بالآخر 2022میں خاتمہ ہوگیا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جس کے نتیجہ میں انہیں پرائم منسٹر ہاؤس سے نکلنا پڑا کو اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ حاصل تھی۔ خان کے ساتھ قسمت کس طرح ڈیل کرتی ہے، اہم ہے؟ کیونکہ یہ پاکستان کے مسائل کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان میں آج تک کوئی وزیراعظم پانچ برس تک اقتدار میں نہیں رہ سکا۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو1979میں پھانسی دے دی گئی۔ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کو ایک بم حملہ میں مار دیا گیا اور سابق وزیراعظم نوازشریف کو2017میں اقتدار سے ہٹا دیا گیا اور جیل بھیج دیا گیا۔ خان کے ساتھ جو ہو رہا ہے، یہ برسوں سے جاری کھیل کی ایک کڑی ہے۔ سیاسی منظرنامہ پر صرف کردار بدلتے رہتے ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک اقتدار34برس فوج کے پاس رہا ہے۔ پاکستان میں معیشت بحران کا شکار ہے اور پاکستان90بلین ڈالر کا مقروض ہے۔ عوام معاشی مشکلات کا شکار ہیں اور پچھلے ایک سال کے دوران70ہزار لوگ بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ خان کے پاس بھی ان مسائل کے حل کے لیے کوئی جامع پروگرام نہیں ہے۔ خان کی نہ ختم ہوتی قید کو اقوام متحدہ کے ایک ورکنگ گروپ نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے خان کی رہائی کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ جمائما گولڈ اسمتھ جو خان کی سابقہ بیوی ہیں، کہتی ہیں کہ خان کے ہفتہ میں دوبار اپنے بیٹوں (جو برطانوی شہری ہیں) کو ٹیلی فون کرنے کی سہولت بھی ختم کردی گئی ہے اور وہ اب قید تنہائی میں ہے۔ برطانیہ کے پاکستان کے ساتھ تاریخی تعلقات ہیں۔ یہ ملک پاکستان کو مالی امداد بھی فراہم کرتا ہے اور 2024-25میں یہ امداد133ملین پونڈ کو پہنچ چکی ہے۔ خان نہ کوئی بڑا جمہوریت کا دیوتا ہے اور نہ ہی کوئی منجھا ہوا بڑا سیاسی کردار ہے۔ اس وقت خان کے معاملات پر بلند آواز میں بات نہ کرنی جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ ہماری حکومت (برٹش) کو اس معاملہ پر بولنا چاہیے، لگتا ہے اس آرٹیکل کے مصنف برطانو شہری ہیں اور ان کی تحریر کو The Times میں جگہ مل جانی ہم سب کے لیے باعث مسرت ہے۔