لندن (پی اے) ویتنام سے لوگوں کو برطانیہ اسمگل کرنے والے ایک مشہور انسانی اسمگلر نے انکشاف کیا ہے کہ ویتنامیوں کو برطانیہ اسمگل کرنے کا سب سے زیادہ منافع بخش دھندہ ہے۔ انسانی اسمگلر کا کہنا تھا کہ میں اب تک 1,000سے زیادہ افراد کو برطانیہ اسمگل کرچکا ہوں۔ اس نے بتایا کہ ویتنامی برطانیہ پہنچنے کے دوسروں سے دگنی رقم دیتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ ویتنام سے ایک شخص کو برطانیہ پہنچانے کے 15,000سے 20,000ہزار ڈالر تک وصول کئے جاتے ہیں۔ بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے بتایا کہ لوگوں کو برطانیہ پہنچانے کیلئے جعلی ویزا اور دوسرے ڈاکومنٹس تیار کرنے کے بعد کشتی کے ذریعہ پہنچایا جاتا ہے، یورپ کے کسی ملک کے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس نے بتایا کہ وہ اپنی جوانی کے کم وبیش 20 سال انسانی اسمگلنگ میں صرف کرچکا ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ فرانس کے شمالی ساحل سے چھوٹی کشتیوں پر لوگوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ کے ساتھ جیل بھی جاچکا ہے۔ اس نے بتایا کہ انسانی اسمگلنگ کا کام بہت ہی منافع بخش اور پرکشش کاروبار ہے۔ بی بی سی کا کہنا ہے کہ کئی مہینے تک فون پر بات چیت کے بعد ایک خفیہ مقام پر یہ ملاقات ممکن ہوئی اور ایک ویتنامی مترجم کے ذریعے اس کا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بات چیت کی گئی۔ بی بی سی کے مطابق اچانک برطانیہ آنے والے مائیگرنٹس میں ویتنامیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، بہت سے ویتنامی کاروبار میں خسارے اور قرض چڑھ جانے کے سبب بہتر ملازمت اور آمدنی کی امید پر جان کی بازی لگا کر برطانیہ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ عام طورپر لوگ ہنگری اور مشرقی یورپ کے دیگر ممالک سے قانونی طورپر ویزا حاصل کر کے برطانیہ آتے ہیں۔ انسانی اسمگلر نے بتایا کہ وہ برطانیہ کا ویزا مانگنے والوں کو جعلی ویزا نہیں دیتا۔ بی بی سی کے مطابق اس نے جب پہلی مرتبہ اس سال کے اوائل میں ایک یورپی ملک میں اس انسانی اسمگلر سے رابطہ کیا تھا تو وہ لوگوں کو لے کر برطانیہ پہنچنے کی تیاری کررہا تھا، بعد میں اس نے اطلاع دی کہ وہ شمالی فرانس کے راستے ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے برطانیہ پہنچ گیا ہے۔ انسانی اسمگلر نے بتایا کہ وہ پہلے جعلی ڈاکومنٹس کے ذریعے بذریعہ طیارہ ہنگری پہنچا تاکہ جائز ویزا حاصل کرسکے، اس کے بعد وہ بذریعہ طیارہ پیرس پہنچا اور وہاں ایک محفوظ مقام پر مقیم رہا، جس کا انتظام ویتنامی اسمگلنگ گروہ نے کیا تھا، اس کے بعد وہ کچھ لوگوں کو منی بس کے ذریعے ساحل پر لایا اور انھیں چھوٹی کشتیوں کے ذریعے چینل کراس کرانے والے کرد گروہ کے حوالے کردیا۔ اس نے بتایا کہ کشتی پر سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا ہے، کشتیوں پر گنجائش سے زیادہ افراد سوار کئے جاتے ہیں لیکن ویتنامی مسافر دوسروں کے مقابلے میں تین چار گنا زیادہ رقم ادا کرتے ہیں، یہ رقم برطانیہ پہنچنے کے بعد ادا کرنا ہوتی ہے۔ انسانی اسمگلر نے کہا کہ پہلی مرتبہ میں قسمت سے کلاس کے ساحلوں کے قریب گشت کرنے والی فرانسیسی پولیس سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوا اور ایک کشتی کے ذریعے برطانیہ پہنچ گیا۔