• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: کیا ابلیس قبر میں بھی میّت کو بہکانے آتا ہے اور بہکنے والے شخص کے لیے توبہ کی گنجائش ہوتی ہے ؟،( محمد قاسم ،لاہور)

جواب: انسان کو بہکانے کے لیے شیطان ہر وقت حربے استعمال کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ موت کے وقت شیطان ایمان برباد کرنے کی کوشش کرتاہے، اللہ تعالیٰ نے ابلیس کی نافرمانی کے سبب جب اسے اپنی بارگاہ سے دھتکارا، تو اُس نے اللہ تعالیٰ سے کہا تھا: ترجمہ:’’ (شیطان نے ) کہا: (اے اللہ !)پس تیری عزت کی قسم! میں ضرور ان سب کو گمراہ کروں گا، سوا ان کے جو ان میں سے تیرے منتخب بندے ہیں، (سورۂ ص: 82-83) ‘‘۔

رسول اللہ ﷺ اُمّت کی تعلیم کے لیے خاص طور پر موت کے وقت شیطان کے فتنے سے بچاؤ کی دعا فرمایا کرتے تھے: ’’ (اے اللہ !) میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ موت کے وقت شیطان میرے حواس مختل کرے، (سُنن ابو داؤد:1552)‘‘۔

حضرت ابو سعید خدری ؓبیان کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ترجمہ: ’’ابلیس نے کہا: (اے اللہ) تیری عزت کی قسم! میں آپ کے بندوں کو مسلسل گم راہ کرتا رہوں گا جب تک روح ان کے جسموں میں ہوگی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: میری عزت وجلال کی قسم! میں بھی برابر ان کی مغفرت کرتا رہوں گا جب تک وہ مجھ سے بخشش طلب کرتے رہیں گے،(مسندِ امام احمد بن حنبل : 11237)‘‘۔

وسوسہ میں مبتلا کرنا ، موت کے وقت اللہ سے مایوس یا اللہ کی جانب سے موت کے فیصلہ پر عدمِ رضا یا موت کے وقت کسی کے سامنے آکر بہکانے کی کوشش کرنا، سب صورتیں ممکن ہیں۔ امام اہلسنّت امام احمد رضا قادری رحمہ اللہ تعالیٰ نے قبر میں سوالات کے دوران شیطان کے بہکانے کی بابت لکھا: ’’وارد ہے کہ جب بندہ قبر میں رکھا جاتا اور سوالِ نکیرین ہوتا ہے، شیطان رجیم (کہ اللہ عزوجل صدقہ اپنے محبوب کریم علیہ افضل الصلاۃ والتسلیم کا ہر مسلمان مرد و زن کو حیات وممات میں اس کے شر سے محفوظ رکھے) وہاں بھی خلل انداز ہوتا ہے اور جواب میں بہکاتا ہے ، وَالْعیَاذُ بِوَجہِ الْعَزِیزِ الْکَرِیْم وَلَاحَولَ وَلَاقُوّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیّ الْعَظیم۔

امام ترمذی محمد بن علی نوادر الاصول میں امام اجل سفیان ثوری ؒ سے روایت کرتے ہیں :ترجمہ:’’ جب مُردے سے سوال ہوتا ہے : تیرا رب کون ہے، تو شیطان اُس پر ظاہر ہوکر اپنی طرف اشارہ کرتا ہے( یعنی میں تیرا رب ہُوں)، اس لیے حکم آیا کہ میّت کے لیے جواب میں ثابت قدم رہنے کی دعا کریں‘‘۔

امام ترمذیؒ فرماتے ہیں: ترجمہ:’’ بعض حدیثیں قبر میں شیطان کے گمراہ کرنے کی مؤیّد ہیں، ان میں واردہے کہ حضور اقدس ﷺ میّت کو دفن کرتے وقت دعا فرماتے:’’ الٰہی! اسے شیطان سے بچا‘‘، اگر وہاں شیطان کا کچھ دخل نہ ہوتا، تو حضور اقدس ﷺیہ دُعا کیوں فرماتے‘‘، (فتاویٰ رضویہ ، جلد5، ص:655)‘‘۔ نوٹ: ’’ یہ دونوں عبارتیں اعلیٰ حضرت نے بالمعنیٰ نقل کی ہیں، اس لیے الفاظ میں کافی تغیّر وتبدل ہے ، پہلی عبارت درست کردی ہے، دوسری عبارت اس طرح ہے : ’’فَلَو لَمْ یَکُن لِلشَّیْطَانِ ھُنَاکَ سَبِیْل مَا کَانَ لِیَدعُوا لہٗ رَسُولُ اللہ ﷺ بِأن یُّجِیْرہٗ مِنَ الشَّیطَانِ‘‘۔ اللہ تعالیٰ مومن کے لیے قبر میں نکیرین کے سوالات کا جواب دینے میں آسانی فرمائے گا ، منافق ، کافر پر سختی ہوگی اور وہ جواب نہیں دے پائے گا۔

حدیث پاک میں ہے : ترجمہ:’’ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جب بندےکو قبر میں رکھ دیاجاتا ہے اور اس کے ساتھی پیٹھ پھیر کر چلے جاتے ہیں حتّٰی کہ وہ اُن کے جوتوں کی آواز سنتا ہے ،پھر اس کے پاس دو فرشتے آکر اس کو بٹھا دیتے ہیں ،پس وہ اس سے کہتے ہیں :تم اس شخص محمد (ﷺ) کے متعلق کیا کہتے تھے، پس وہ کہے گا : میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ،پھر اس سے کہاجائے گا : دیکھو ! یہ دوزخ میں تمہارا ٹھکانہ تھا، اللہ نے اس کے بدلے میں تمہیں جنت میں ٹھکانہ عطا فرما دیا ہے، نبی اکرمﷺ نے فرمایا : پس وہ ان دونوں جگہوں کو دیکھے گا، رہا کافر یا منافق تو وہ کہے گا : میں نہیں جانتا، میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے، پس اس سے کہا جائے گا : نہ تو نے عقل سے جانا اورنہ قرآن مجید کی تلاوت کی ،پھر اس کے دونوں کانوں کے درمیان لوہے کے ہتھوڑے سے ضرب لگائی جائے گی ، جس سے وہ چلّائے گا اور اس کے چلّانے کی آواز کو جنّ وانس کے علاوہ اس کے قریب کی تمام چیزیں سنیں گی ، (صحیح بخاری:1338)‘‘۔)

توبہ کا وقت صرف زندگی میں ہے ، موت کے بعد توبہ ممکن نہیں ، قبر میں میّت سے اسی کی بابت پوچھا جائے گا ،جو وہ دنیا میں کہا کرتا تھا اور وہ وہی جواب دے گا ،جو دنیا میں کہا کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ترجمہ: ’’اللہ ایمان والوں کو دنیا اور آخرت کی زندگی میں حق بات (کلمۂ توحید) پر ثابت قدم رکھتا ہے اور ظالموں (کافروں) کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے، (ابراہیم:27)‘‘۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں: ترجمہ:’’ جب کوئی مسلمان بندہ فوت ہوجاتا ہے ،تو اس کو اس کی قبر میں بٹھاکر اُس سے پوچھاجاتا ہے : تیرا رب کون ہے ، تیرادین کیا ہے ، تیرا نبی کون ہے ، پس اللہ تعالیٰ اس کو ان جوابات میں ثابت قدم رکھتا ہے ،وہ کہتا ہے : میرا رب اللہ ہے ، میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی(سیدنا) محمد ﷺ ہیں ،پھر اس کی قبر میں وسعت کردی جاتی ہے اور اس کے لیے اس میں کشادگی کی جاتی ہے پھر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے یہ آیت پڑھی: ’’اللہ ایمان والوں کو دنیا اور آخرت کی زندگی میں حق بات (کلمۂ توحید) پر ثابت قدم رکھتا ہے اور ظالموں (کافروں) کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے ، (اَلْمُعْجَمُ الْکَبِیْر لِلطّبْرَانِی:9145)‘‘۔

حافظ علامہ جلال الدین سیوطی ؒ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ سوال جواب کی کیفیت احادیث میں مختلف بیان ہوئی ہے اوریہ بھی اشخاص کے لحاظ سے ہے۔ کسی سے اس کے بعض عقائد کے متعلق سوال ہوگا اور کسی سے تمام کے بارے میں پوچھا جائے گا اور یہاں یہ اِحتمال بھی ہوسکتا ہے کہ بعض راویوں نے ایک آدھ سوال ذکر کرنے پر اِکتفا کیا ہو اور دوسرے بعض نے مکمل بیان کردیا ہو، ( شرح الصدور،ص:142)‘‘۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’ ان لوگوں کی توبہ قبول کرنا اللہ نے اپنے ذمۂ کرم پر نہیں لیا جو گناہ کرتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں کسی کی موت سرپر آجاتی ہے ،تو کہتا ہے: اب میں نے توبہ کی اور نہ ان کی توبہ قبول ہوتی ہے ،جن کی موت کفر پر واقع ہوئی ہو،(سورۃ النساء:18)

توبہ کرنے اور اس کی قبولیت کا موقع سکراتِ موت طاری ہونے سے پہلے تک ہے، حدیثِ پاک میں ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ جب تک سکراتِ موت کا عالم طاری نہ ہوجائے، اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ قبول فرماتا ہے ،(سُنن ترمذی: 3537)‘‘۔

اقراء سے مزید