تحریر: ہارون نعیم مرزا…مانچسٹر
غزہ‘ لبنان اور یمن میں بد امنی پھیلانے کے بعد ایران پر اسرائیلی حملے نے مشرق وسطی میں خطرے کی بڑی گھنٹی بجا دی ہے۔ اسرائیلی فورسز کی جانب سے عالمی دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے کئی ماہ سے مسلسل غزہ پر بمباری اور قتل عام کا سلسلہ جاری رکھاجارہا ہے۔ بیگناہ بچے یتیم،نوجوان خواتین بیوہ، مائیں اپنے بچوں سے محروم اورنوجوان بہن بھائیوں کو کھو چکے ہیں۔ لاکھوں افراد کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبورہیں انفراسٹرکچر بری طرح اور اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے ۔غز ہ کے بعد یمن میں بھی مداخلت کی گئی اب ایران پر براہ راست اسرائیل نے حملہ کر کے ایک نئی جنگ چھیڑنے کا اعلان کر دیا ہے ۔ ایران کی جانب سے جب 13اپریل 2024کو صہیونی ریاست پر حملہ کیا گیا تو اس کو مغرب نے ایک بیوقوفانہ کارروائی کہا جبکہ مخالف بلاک نے اس کو جرأتمندانہ کارروائی قرار دیا۔یہ کارروائی بنیادی طور پر اسرائیل کے دمشق، شام میں ایرانی سفارتخانے پر ہونے والے حملے کا جواب تھا جس میں کئی افراد جان سے گئے تھے۔ خطہ جنگ کی دلدل میں اس وقت سے دھنستا جارہا ہے جب حزب کے حملے میں اسرائیل کے اندر 1200سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔ اس حملے کے بعد اپریل میں ہی خطہ فارس سے حملہ کیا گیا جس میں محتاط اندازوں کے مطابق سینکڑوں میزائل فائر کیے گئے اور اس حوالے سے کامیابی نقصان کرنا نہیں گردانا گیا بلکہ اس خطے تک اتنے مضبوط سیکیورٹی حصار کو توڑ کرپہنچنا ہی کامیابی سمجھا گیا ۔غیر جانبدارانہ انداز سے اس حملے کو دیکھیں تو اس کو ایک اچھی فیس سیونگ کہا جاسکتا ہے کہ خطہ فارس کو بھی یقینی طور پر اپنے عوام کے سامنے جواب دہ تو کسی نہ کسی حد تک ہونا پڑتا ہے اسی لیے یہ حملہ کیا گیا اور اسے اپنی کامیابی بھی قرار دیا گیا ۔بہرحال کامیابی کے دعوے تو دونوں فریق کرتے ہیں گزشتہ کچھ ماہ سے اس چپقلش میں اضافہ ہوچکا ہے اور اس کی وجہ صہیونی ریاست کی کارروائیاں ہیں ۔سرزمین فارس پر ہی اسماعیل ہانیہ کی شہادت ہو یا حزب سربراہ کو نشانہ بنانا ہو، صہیونیت یقینی طور پر اپنے عزائم کو تکمیل کی طرف لے جارہی ہے اور اپنے خلاف جاری مزاحمتی تحریک کو کاری ضرب لگارہی ہے۔ حالیہ کارروائیوں میں سنوار کی شہادت اور پھر حزب کے متوقع سربراہ کو بھی راستے سے ہٹانے نے صہیونی ریاست کی کارروائیوں کے ساتھ اسے فرنٹ فٹ پر ضرور لا کھڑا کیا ہے۔ایرانی صدر اور اسماعیل ہانیہ جیسے بڑے لیڈروں کی پے در پے شہادتوں کے بعد پہلے ہی خطے میں کشیدگی پائی جا رہی ہے لیکن دور رس نتائج اس کے یقینی طور پر خطے کی بربادی کی طرف ہی جا رہے ہیں ۔مستقبل قریب میں واضح اشارے موجود ہیں کہ خطے میں پراکسی وارگروپس اب یقینی طور براہ راست جنگ میں فریق بنتے جائیں گے اس کی مثال حزب کے ساتھ ساتھ لبنان سے دیگر مزاحمتی گروپس کا متحرک ہو جانا بھی ہے۔ امریکا کا کردار بھی اس حوالے سے حیران کن ہے ایک طرف تو وہ صیہونی ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں اور دوسری جانب ریاست فارس سے یہ اپیل کہ اس حملے کا جواب نہ دیا جائے۔ یہ وہی مثال ہوگئی کہ تھپڑ بھی مارو اور رونے بھی نہ دو۔ دوغلے معیار کے حوالے سے جہاں مغرب اولین صف میں ہے وہیں پر انکل سام بھی ہیں تیل کی تنصیبات کو نقصان نہ پہنچانے کی اپیل بھی اسی لیے تھی کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔چند دن بعد ہونے والے انتخابات کی وجہ سے انکل سام کسی معاشی بحران کے متحمل نہیں ہوسکتے ورنہ اپنے لے پالک کے ساتھ تو انکل سام روزاول سے کھڑے ہیں اسرائیلی جارحیت سے نمٹنے کیلئے ایران نے جہاں اپنی تیاریاں تیز کر دی ہیں وہیں اپنے فوجی بجٹ میں 200فیصد اضافہ کرنیکا بھی فیصلہ کیا ہے۔ فوجی بجٹ میں اضافے کی منظوری آئندہ برس مارچ میں پارلیمنٹ سے لی جا ئے گی۔ تھنک ٹینک اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق 2023میں ایران کے فوجی اخراجات تقریباً 10.3بلین ڈالر تھے جو کہ 2022میں 6.85ارب ڈالر ہوگئے ۔رواں برس اسرائیل نے فوج پر 27.5بلین ڈالر خرچ کیے 2024 میں امریکا نے اسرائیل کو 12.5ارب ڈالر کی فوجی امداد فراہم کی ۔فلسطین میں حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ اسرائیل نے غزہ کی لائف لائن اونروا پر پابندی کا بل منظور کرلیا۔اقوام متحدہ کی ایجنسی سات دہائیوں سے فلسطین میں امدادی کام کررہی ہے ۔اسرائیلی اقدام سے غزہ میں انسانی امداد کی تقسیم کا پہلے سے کمزور عمل مکمل طور پر ختم ہونے کا خدشہ ہے اونروا غزہ میں انسانی امداد پہنچانے والی اہم ایجنسی ہے جس کے سینکڑوں کارکن ایک سال کے دوران اسرائیلی حملوں میں مارے گئے ہیں اکتوبر 2023سے اب تک غزہ میں اسرائیلی حملوں میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 43ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جو بہت بڑا انسانی المیہ مانا جاتا ہے۔ شہداء میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں۔ اسلامی ممالک سمیت انسانی حقوق کے بعض ممالک اور تنظیموں کی طرف سے اسرائیل کو جنگ بندی کیلئے قائل کرنیکی کوششیں کی گئیں مگر اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ پاکستان بھی فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہا ہے سعودی عرب کے دورے میں وزیراعظم شہباز شریف نے بین الاقوامی سرمایہ کاری کانفرنس میں تقریر کے دوران فلسطین اور غزہ کے نہتے شہریوں کے حق میں آواز بلند کی ۔وہ غزہ اور فلسطین میں ظلم و جبر کے شکار نہتے فلسطینیوں کی وہ مضبوط آواز بن گئے ریاض میں بین الاقوامی سرمایہ کاری کے لیے منعقدہ فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹیو میں وزیراعظم نے خطے اور عالمی ترقی کے لیے غزہ اور فلسطین میں ظلم و ستم کے خاتمے کو لازمی قرار دیا عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں ہوں‘خطے کی دیگر عالمی طاقتوں کا کردار ہو‘ مستقبل قریب کے امریکی انتخابات ہوں یا پھر وجہ کچھ بھی ہو لیکن کوئی بھی فریق اس وقت یقینی طور پر براہ راست کھلی جنگ برداشت نہیں کرسکتا مگراس امر سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں کہ خطے میں جنگ کی صورتحال دیگر ممالک کوبھی لپیٹ میں لے سکتی ہے پائیدار امن کیلئے حل نکالنا ناگزیر ہو چکا ہے ورنہ اسرائیلی جارحیت اور اسلامی ممالک کا ری ایکشن صورتحال کے بگاڑ کا سبب بن سکتا ہے اور وسیع پیمانے پر تباہی اور ہلاکتیں اس خطے کے مکینوں کا مقدر بن سکتی ہیں۔